بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا استنجاء نہ کرنا اور بیوی کا الگ سونا


سوال

اگر شوہر استنجا نہ کرے اور بیوی الگ سوئے تو کون قصور وار ہوگا ؟

جواب

استنجا کا تعلق  قضائے حاجت کے ساتھ ہے، قضائے حاجت کے بعد استنجا کرنا سنت ہے اور بعض صورتوں میں واجب ہوجاتا ہے، قضائے حاجت کے بغیر وضو کرنے کی صورت میں اس سے پہلے استنجا کرنا ضروری نہیں، اگر خروجِ ریح کی وجہ سے استنجا کیا جائے تو یہ بدعت ہے، باقی پیشاب کرنے کے بعد استنجاء کرکے  بیوی سے صحبت کرنا  مسنون طریقہ ہے،البتہ پیشاب کرنےکے بعد استنجاء کے بغیر بیوی سے  صحبت کرے تو یہ بھی جائز ہے۔

 عمومی احوال میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی  ایک ہی  بستر پر آرام کریں،  کسی معقول و معتبر  وجہ کے بغیربیوی  کو الگ کمرے میں آرام نہیں کرنا چاہیے،خصوصا جب شوہر بیوی کو ساتھ سونے کا کہے ،اگرچہ وہ  ہم بستری کے لیے نہ بلارہا ہو ،اسی طرح  حیض کی حالت میں بھی  اگر کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہوتو میاں بیوی کو   یہود کی مخالفت  کی وجہ سے ایک ہی بستر میں سونا چاہیے ، چناں چہ شوہر اگر  اپنے کمرے میں سونے کا کہے اور بیوی  دوسرے کمرے میں سوئے تو اس صورت میں شوہر کی بات نہ ماننے کی وجہ سے بیوی گناہ گار ہوگی اور اگر شوہر کی اجازت سے دوسرے کمرے  میں سوئے تو گناہ گار نہیں ہوگی، باقی شوہر کااستنجاء نہ کرنا عذر شمار نہ ہوگا، لیکن شوہر پر بھی بیوی کی طبعیت کی رعایت رکھنا لازم ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن الاستنجاء على خمسة أوجه: اثنان واجبان:

أحدهما: غسل نجاسة المخرج في الغسل من الجنابة والحيض والنفاس كي لاتشيع في بدنه. 
والثاني: إذا تجاوزت مخرجها يجب عند محمد  قل أو كثر وهو الأحوط؛ لأنه يزيد على قدر الدرهم، وعندهما يجب إذا جاوزت قدر الدرهم؛ لأن ما على المخرج سقط اعتباره، والمعتبر ما وراءه.
والثالث: سنة، وهو إذا لم تتجاوز النجاسة مخرجها.
والرابع: مستحب، وهو ما إذا بال ولم يتغوط فيغسل قبله.

والخامس: بدعة، وهو الاستنجاء من الريح. ا هـ".

(فصل الاستنجاء، باب الانجاس، جلد 1ص: 336، ط: سعید)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أتى أحدكم أهله، ثم بدا له أن يعاود، فليتوضأ بينهما وضوءا»."

(كتاب الطهارة، باب الوضوء لمن أراد أن يعود، ج: 1، ص: 57، ط: المكتبة العصرية بيروت)

بخاری شریف   میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع».

 (7/ 30الناشر: دار طوق النجاة)

 فيض القدير میں ہے: 

 "وأن السنة أن يبيت الرجل مع أهله في فراش واحد ولا يجري على سنن الأعاجم من كونهم لا يضاجعون نساءهم بل لكل من الزوجين فراش فإذا احتاجها يأتيها أو تأتيه."

(1/ 309الناشر: المكتبة التجارية الكبرى - مصر)

 شرح النووي على مسلم میں ہے:

  "والصواب في النوم مع الزوجة أنه إذا لم يكن لواحد منهما عذر في الانفراد فاجتماعهما في فراش واحد أفضل وهو ظاهر فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي واظب عليه مع مواظبته صلى الله عليه وسلم على قيام الليل فينام معها فإذا أراد القيام لوظيفته قام وتركها فيجمع بين وظيفته وقضاءحقها المندوب وعشرتها بالمعروف لاسيما إن عرف من حالها حرصها على هذا ثم إنه لا يلزم من النوم معها الجماع والله أعلم."

(14/ 60الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101565

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں