بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا حق


سوال

بغیر کسی عذر کے اگر عورت ازدواجی تعلق قائم نہ کرنا چاہے، ا س صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جماع، ہم بستری میاں بیوی دونوں کا ہی حق ہے، تاہم شوہر کا حق اس میں غالب ہے،  بیوی کی صحت ٹھیک ہو، شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، شرعی عذر  جیسے ایام، یا کم عمری کی وجہ سے ہم بستری کی متحمل نہ ہو، یا بیماری کے  بغیر تسکینِ شہوت سے شوہر کو روکنا بیوی کے لیے شرعاً جائز نہیں، تاہم اگر شوہر اپنی بیوی کی خوشی کو مدنظر رکھ کر اس کی اجازت دیتا ہے اور خود بھی گناہ سے بچتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے، اس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح . متفق عليه ... وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح. متفق عليه. وفي رواية لهما قال: والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها. رواه مسلم."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ‌‌الفصل الأول، ج:2، ص:968، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

 ترجمہ:" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔۔۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔"

وفیہ ایضًا:

"وعن طلق بن علي قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور " رواه الترمذي . "

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، الفصل الثاني، ج:2، ص:972، رقم الحدیث: ط:المكتب الإسلامي بيروت)

"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو  اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر روٹی بنارہی ہو ( تب بھی چلی آئے)۔ "

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

 فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار. حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

(‌‌الباب الأول الزواج وآثاره، الفصل الثاني تكوين الزواج، المبحث الرابع أنواع الزواج وحكم كل نوع، أحكام الزواج عند الفقهاء، ج:9، ص:6598، ط:دار الفكر سورية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں