بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا غصہ کی حالت میں بیوی سے یہ کہنا کہ ہاں جاؤ، چلی جاؤ گھر


سوال

میاں بیوی کےدرمیان آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے تھے ، ایک دن غصہ کی حالت میں بیوی نے کہا کہ جب آئے دن مجھ سے مسئلہ ہوتا رہتا ہے ، میں ہی آپ کی نگاہ میں بُری ہوں تو مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ تو شوہر نے کہا کہ ہاں! جاؤ، چلی جاؤگھر اور بچوں کو یہاں چھوڑدینا، اپنے بھائی کو بُلا لو، تو بیوی نے اپنے بھائی کو بُلا یا اور ا س کے ساتھ میکے چلی گئی اور بچوں کو بھی چھوڑدیا ، رات میں بچے بیوی کے پاس چلے گئے ، اس کے بعد چار ماہ تک ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا،پھر چار ماہ دس دن بعد ان دونوں کےدرمیان تعلقات بحال ہوئے تو بیوی نے شوہر سے فون پر رابطہ کیا ، بیوی نے پہلے شوہرسے اس کی نیت کے بارے میں سوال کیا کہ اس کی نیت اس وقت کیا تھی؟ شوہر نےکہا کہ میں تمہیں طلاق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا او رنہ کبھی میں نے اس کے بارے میں دل میں خیال لایاہے ۔ 

سوال یہ ہے کہ مذکورہ  الفاظ سے طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں ؟اور عدت کا کیا ہوگا؟

واضح ہوکہ چار ماہ دس دن بعد شوہر بیوی کے گھر آیا ، اس درمیان میاں بیو ی کمرے میں علیحدہ بھی ہوئے ، خلوت حاصل ہوئی ، دواعی جماع بھی ہوا ، لیکن جماع نہیں ہوا، تو طلاق کی صورت میں عدت کا کیا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا  شوہر نے سوال نامہ میں مذکور الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ، بیوی شوہر کے نکاح میں ہے اور دونوں کا نکاح بدستور برقرارہے ، بحیثیت میاں بیوی ساتھ رہ سکتے ہیں ۔

اور اگر شوہر کی نیت ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت طلاق کی ہو تو ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوگئی ہے ، نکاح ختم ہوگیا ہے، ساتھ رہنے کے لیے  بہرصورت (خواہ عدت باقی ہو یا گزرچکی ہو) گواہوں کی موجود گی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا، اس صورت میں  آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔ 

طلاق واقع ہونے کی صورت میں عدت تین ماہواریاں ہوگی بشرطیکہ حمل نہ ہو، اور بصورتِ حمل بچے کی پیدائش تک عدت ہوگی۔ 

البحرالرائق میں ہے:

’’(قوله: اخرجي ‌اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك قيد باقتصاره على ‌اذهبي لأنه لو قال: ‌اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: ‌اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى كذا في الخلاصة۔‘‘

(کتاب الطلاق، باب الکنایات فی الطلاق،ج:۳،ص:۳۲۶،ط:دارالکتاب الاسلامی)

امداد الفتاوی میں ایک سوال کے جوا ب میں مذکورہے:

’’یہ کہنا کہ چلی جا،ان کنایات سے ہے جن میں ہر حال میں نیت طلاق کی شرط ہے اور نیت کا علم اب ہونہیں سکتا ،لہٰذا اب طلاق واقع نہیں ہوگی،اور وہ عورت مستحق میراث پانےکی ہے۔‘‘

(امدادالفتاوی ،ج:۴،ص:۳۶۴،ط:مکتبہ دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں