بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی سے غیر فطری طریقہ سے جماع کرنے کا حکم


سوال

میں چودہ سال سے اپنے شوہر سے پریشان ہوں، میرے شوہر کےملنے کے طریقے غلط ہیں، میرے اس وجہ سے چار آپریشن ہوچکے ہیں، میں اس طریقہ سے ملنے کو منع کرتی تھی تو وہ مجھے مارتا تھا، میں نے یہ باتیں اپنی پھوپھی کو بتائیں کہ میرا شوہر مجھ سے پیچھےکے راستے سے ملتا ہے ،آگے  سے مختلف چیزیں میرے وجود میں ڈال کر اتنی زور سے جھٹکے مارتا ہے کہ برداشت سے باہر ہوتا ہے ، لیکن انہوں نے کہا کہ جیسے بھی ہے نبھاؤ، کسی نے بھی میری مددنہیں کی۔

اب دو سال سے وہ میرے ساتھ یہ سب زیادہ کرنے لگا ہے ، انگلش فلمیں دیکھتا ہے ،اور ویسے ہی میرے ساتھ سلوک کرتا ہے، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ، ان کی اس سب حرکتوں کی وجہ سے میرے پیٹ  میں انفیکشن پھیل گیا ہے ، میں  نے  ایک نیک خاتون کو  یہ سب باتیں بتائیں تو  انہوں نے ان باتوں پر کہا کہ میں چودہ سال پہلے ہی اس کےنکاح سے باہر ہوچکی ہوں، اگر ایساہے تو میری مدد کریں،مجھے ان تکلیفوں سے چھٹکارا اور حرام زندگی سے بچائیں۔

آیا میرا اس سے نکاح برقرار ہے؟

وضاحت:میرے شوہر نےمجھے کبھی کوئی طلاق نہیں دی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کا شوہر سائلہ سے غیر فطری طریقے سے جماع کرتا ہے، اور سائلہ کے منع کرنےکے باوجود وہ اپنے اس قبیح فعل سے باز نہیں آتا تو اس کی وجہ سے سائلہ کے نکاح پر توکوئی اثر نہیں پڑا، دونوں کا نکاح برقرار ہے،البتہ  یہ طرزعمل  اختیار کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے ، احادیثِ مبارکہ میں اس طرح کےقبیح  افعال کرنے والے پر سخت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں۔

نیز مذکورہ بیان اگر حقیقت پر مبنی ہو تو اس صورت میں شرعاً سائلہ کو یہ حق حاصل  ہے کہ مذکورہ ظلم کو  قاضی کی عدالت میں  ثابت کرکے قاضی سے تفریق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

’’عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لاينظر الله إلى رجل جامع امرأته ‌في ‌دبرها».‘‘

(سنن ابن ماجه، باب النھي عن إتیان النساء في أدبارهنّ، ص:۲۵۴، ط:رحمانیہ)

وفيه أيضًا:

’’و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌ملعون من أتى امرأته في دبرها». رواه أحمد وأبو داود.‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب المباشرۃ، ج:۲، ص:۲۸۴، ط:رحمانیہ)

ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو ملعون قرار دیاجو اپنی بیوی کےمقعد میں  بد فعلی کرنے والا ہے ۔‘‘

(مظاہرِ حق ،ج:۳، ص: ۳۷۰، ط:مکتبۃ العلم)

بدائع الصنائع میں ہے:

’’و لايحل إتيان الزوجة في دبرها لأن الله تعالى عز شأنه نهى عن قربان الحائض ونبه على المعنى وهو كون المحيض ‌أذى والأذى في ذلك المحل أفحش وأذم فكان أولى بالتحريم وروي عن سيدنا علي - رضي الله عنه - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من أتى حائضًا أو امرأةً في دبرها أو أتى كاهنًا فصدقه فيما يقول فهو كافر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم» «نهى عن إتيان النساء في محاشهن» أي أدبارهن.‘‘

(کتاب الاستحسان، ج:۵، ص:۱۱۹، ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

’’لقوله تعالى: {ويسألونك عن المحيض قل: هو أذىً فاعتزلوا النساء في المحيض، ولاتقربوهن حتى يطهرن} [البقرة:222/ 2] والنفاس أخو الحيض. وقوله عز وجل: {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة:223/2] أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل. و قول سبحانه: {والذين يظاهرون من نسائهم، ثم يعودون لما قالوا فتحرير رقبة من قبل أن يتماسا} [المجادلة:58/ 3].

وقوله صلّى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأة في دُبُرها»،«من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم»، وقوله أيضاً: «واتقوا الله في النساء، فإنهن عندكم عوانٍ، لا يملكن لأنفسهن شيئاً … وإنما أخذتموهن بأمانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله عز وجل» وكلمة الله المذكورة في كتابه العزيز: لفظة الإنكاح والتزويج.

لكن لاتطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي ‌بسبب ‌الأذى والضرر.‘‘

(أنواع الزواج و حکمھا فی القانون، ھل استمتاع کل من الزوجین ........ج:۹، ص:۶۵۹۰، ط:دارالفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں