میری بیٹی کی کچھ عرصہ پہلے شادی ہوئی، دونوں کے درمیان لڑائی ہوتی رہتی تھی، ایک دن ایسا ہوا کہ اس شوہر نے میری بیٹی کو مار مار کہ گھر سے نکال دیا، بیٹی وہاں سے اپنے دیور کے گھر چلی گئی، شوہر وہاں بھی چلا گیا اور وہاں سے بھی مار کر روڈ پر لے آیا، وہاں سے سُسر نے بیٹی کو سنبھالا اور ہمیں فون کرکے بلایا ۔
میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح گھر سے مار مار کر نکالنے سے طلاق ہوتی ہے یا نہیں ؟
وضاحت: سائل کے مطابق شوہر پہلے بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتا تھا، لیکن ابھی اس واقعہ میں اس نے کوئی جملہ نہیں کہا، صرف مار پیٹ کر کے گھر سے نکال دیا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کے داماد نے اپنی بیوی کو صرف مار کر گھر سے نکالا ہے اور کوئی جملہ یا الفاظ نہیں کہے ، تو آپ کی بیٹی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے۔
باقی میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچان کر ان کا خیال رکھیں، شوہر پر عورت کے حقوق ادا کرنا اور عورت پر شوہر کے حقوق ادا کرنا لازم ہیں۔ شوہر کا بلاوجہ شرعی مارنا پیٹنا، بے عزت کرنا شریعتِ مطہرہ کی رو سے ظلم ہے، اپنے اس فعل پر معافی مانگے اور درگزر کے ساتھ زندگی گزارے، تاکہ دونوں خاندانوں میں محبتیں پیدا ہوں۔ تاہم اگر زوجین کا آپس میں نباہ ممکن نہیں ہے، تو اس کا حل یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ بُرا سلوک کریں بلکہ خاندان کے معزز افراد کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرائیں، خود کوئی اقدام کرنا مزید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
حدیث شريف میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:973، ط: المکتب الإسلامي)
”ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔“
ایک اور حدیثِ میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".
(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:971، ط؛ المکتب الإسلامي)
”ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔“
ایک اور روایت میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".
(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:971، ط؛ المکتب الإسلامي)
”ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے (اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے (ادا اور قضا) روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے خاوند کی فرماں برداری کی تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔“
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط: دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606100240
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن