اگرکوئی بندہ بیرون ملک رہائش پذیر ہو اور گھر پر والدین بیماری کی حالت میں انتقال کر گئے، اس حال میں کہ ان کے پاس اس کی بیوی کے علاوہ کوئی نہیں تھا اور بیوی نے شوہر کے والدین کی خدمت سے انکار کردیا کہ یہ میرے فرائض میں نہیں ہے اور شوہر نے اس بات پربیوی کو اگر طلاق دے دی، تو شوہر کا یہ عمل شریعت کی روسے جائز ہو گا کیا؟
میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہم دردی و ایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے اگرچہ کچھ چیزیں بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کےتقاضے کے طور پر ایسی چیزیں دونوں کا اخلاق فرض بنتی ہیں۔
لہذا عورت کے ذمہ ساس سسر کی خدمت اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کے ماں باپ ہیں، اور ان کو احترام اور خدمت میں اپنے ماں باپ کا درجہ دے، اور ان کی خدمت کو اپنی سعادت اور اخلاقی ذمہ داری سمجھے، جس طرح اَپنے ماں باپ کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے ماں باپ کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری اور شوہر کے ہاتھ بٹانے میں شامل ہے۔
لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر کا اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس سسر کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا درست نہیں، اسی طرح شوہر کا اپنے والدین کو اکیلی بیوی کے آسرے پر چھوڑ کر خود ملک سے باہر چلے جانا، وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ اس کے والدین بیمار ہوں اور ان کو اس کی خدمت کی ضرورت ہو،یہ ہر گز درست نہیں، بلکہ والدین اور بیوی دونوں کی حق تلفی ہے،اس لیے کہ والدین کی خدمت اصلا ان کی اپنی اولاد پر لازم ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں جہاں بہو کا طرز عمل درست نہیں تھا کہ اس نے ضرورت کے وقت میں اپنے ساس سسر کی خدمت سے انکار کیا، وہیں بیٹا بھی قصور وار ہے کہ اس نے والدین کی خدمت ترک کی جو کہ اصل اس کا فرض تھا،اور اگر اس کے لیے وطن آنا اور وطن میں رہنا ناممکن نہ تھا، تو ایسے حالات میں اس نے اپنے والدین کو اکیلے چھوڑا، جب کہ ایسی صورت حال میں بہت سی خدمت (مثلا بروقت ہسپتال لے کر جانا وغیرہ) ایسی ہوتی ہیں جو اکیلی عورت (بہو) کے لیے کرنا ممکن یا آسان بھی نہیں ہوتی، بلکہ وہ ذمہ داریاں مرد ہی نباہ سکتا ہے۔
بہرحال دونوں میاں بیوی اپنے عمل پر توبہ استغفار کریں، اور شوہر کا محض اس بناء پر بیوی کو طلاق دینا درست نہیں تھا، تاہم شوہر کو چاہیے کہ طلاق کے بارے میں تفصیل بتا کر اس کا حکم معلوم کرلیا جائے، اگر رجوع یا تجدید نکاح کی شرعا گنجائش ہو تو دوبارہ نباہ کرلیا جائے اور بیوی اپنی غلطی پر نادم ہو تو اس کو معاف کردیا جائے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:
’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔
(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، باب: 31،ص:47، 48، ط: تاج کمپنی کراچی)
جامعہ کے رئیس دار الافتاء حضرت مولانا مفتی محمدعبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ایک فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر بیوی فارغ ہو تو سسر اور ساس کی جائز خدمت کرنا اس پر لازم ہے، انسانی ہم دردی کے علاوہ اس وجہ سے بھی کہ وہ شوہر کے والدین ہیں، شوہر کے والدین کی خدمت کرنا درحقیقت شوہر کی خدمت کرنا ہے، البتہ جب وہ فارغ نہ ہو یا کوئی ایسی خدمت جو انجام دینا اس کے لیے درست نہیں، وہ بہو کے ذمہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘ (کتبہ: محمد عبدالسلام، 4/2/1412)
فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"شرعاً ہندہ کے ذمہ شوہر کی ماں کی خدمت واجب نہیں، لیکن اخلاقی طور پر اس کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ اس کے شوہر کی ماں ہے، تو اپنی ماں کی طرح اس کو بھی راحت پہنچانے کا خیال رکھے اور شوہر کی اطاعت کرے، آخر جب ہندہ کو ضرورت پیش آتی ہے، تو شوہر کی ماں اس کی خدمت کرتی ہے، اس طرح آپس کے تعلقات خوشگوار رہتے ہیں اور مکان آباد رہتا ہے، البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ اپنی بیوی سے نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، اس کو سمجھائے کہ میں تمہاری ماں کا احترام کرتا ہوں اور انکو اپنی ماں کی طرح سمجھتا ہوں، تم بھی میری ماں کو اپنی ماں کی طرح سمجھو۔ نیز بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔فقط واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔"
(باب احکام الزوجین، ج:18، ط:ادارۃ الفاروق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102164
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن