بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو نامحرم سے فون پر بات کرنے سے منع کرنے کا حکم


سوال

اگر بیوی کو کسی غیر محرم سے فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا اور اس شخص کے ساتھ کافی وقت سے ان دونوں کے تعلقات کے بارے میں معلومات حاصل  ہوئیں  ، اب کشمکش یہ ہے کہ ان دونوں میں کسی طرح کے جسمانی تعلقات قائم ہوئے ہیں یا  نہیں ،  تو  شوہر کو کیا کرنا چاہئے ؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ رب العزت نے نکاح کی برکت سے میاں بیوی کی صورت  میں جو رشتہ بطور نعمت عطا فرمایا ہے، اس کا مدار اعتماد اور بھروسے پر رکھا ہے، زوجین کا رشتہ اور تعلقات خوش گوار  رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کریں اور ایک دوسرے کے بارے میں  بد گمانی سے بچیں،کیونکہ   شک اور بد گمانی سے ازدواجی زندگی میں بہت بڑا بگاڑ آجاتا ہے،اس لئے  حُسنِ ظن کے ساتھ ایک دوسرے کے ظاہری احوال معلوم ہونے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے  اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگ کر ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی  چاہیے، اور ایسے تمام امور  سے بچنا چاہیے جو شک و شبہ کو جنم دے سکتے ہوں اور باہمی بد اعتمادی کا باعث ہوں،  چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو بغیر بتائے رات کے وقت  سفر سے گھر  لوٹنے سے بھی اجتناب کا حکم دیا ہے، من جملہ دیگر وجوہات  کے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی ایسی بات یا حالت پر مطلع نہ ہو جو اسے ناپسند ہو یا جس سے اعتماد کو ٹھیس پہنچے،  نیز اللہ رب العزت نے ٹوہ  لگانے اور تجسس سے منع فرمایا ہے۔ 

 باقی عورت کا کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے   نامحرم کے ساتھ  ناجائز تعلقات قائم کرنا یقینًا انتہائی قبیح فعل ہے،  اس لئے سائل مزید ٹوہ میں لگنے کے بجائے  اپنی بیوی   کی اصلاح کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کرے:

 پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے۔

 دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی  کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں   (فِي الْمَضَاجِعِ)  کا لفظ  آیا ہے، اس کامطلب  فقہاءِ  کرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔ چناں چہ ایک صحابی سے روایت ہے:

’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کر دو) مکان الگ نہ کرو ‘‘۔

اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو  تیسرے درجہ میں  اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، نیز  ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع کیا گیا ہے۔

چناں چہ مشکاۃ  شریف   کی روایت میں ہے:

’’ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛ کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے، پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری  کرے‘‘۔

نیز    خاندان کے بڑوں  یا کسی ایسے محرم کے ذریعہ بیوی کو شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کا سبق پڑھوایا  جائے، جن کی بات کا اس پر اثر ہو، امید ہے کہ مذکورہ بالا طرقِ اصلاح سے  بیوی کے رویے میں بہتری آ جائے گی۔

ارشادِ  باری تعالی ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا﴾." [الحجرات: 12]

ارشادِ  باری تعالی ہے:

"﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾."[النساء: 35]

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء،‌‌ الفصل الثاني، رقم الحديث:3238، ج:2، ص:967، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عبد الله بن زمعة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يجلد أحدكم امرأته جلد العبد ثم يجامعها في آخر اليوم."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء،‌‌ الفصل الثاني، رقم الحديث:3242، ج:2، ص:968، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء،‌‌ الفصل الثاني، رقم الحديث:3255، ج:2، ص:972، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه."

(كتاب النكاح، باب عشرة النساء،‌‌ الفصل الثاني، رقم الحديث:3252، ج:2، ص:971، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

سنن أبي داود میں ہے:

"عن إياس بن عبد الله بن أبي ذباب، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا ‌تضربوا ‌إماء ‌الله" فجاء عمر إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: ذئرن النساء على أزواجهن، فرخص في ضربهن، فأطاف بآل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نساء كثير يشكون أزواجهن، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: لقد طاف بآل محمد نساء كثير يشكون أزواجهن، ليس أولئك بخياركم."

(‌‌أول كتاب النكاح، باب في ضرب النساء، ج:3، ص: 479، ط:دار الرسالة العالمية)

فتح الباري   شرح صحیح البخاري  لابن حجر میں ہے :

"(قوله باب لا يطرق أهله ليلا إذا أطال الغيبة مخافة أن يتخونهم أو يلتمس عثراتهم)."

"قوله يكره أن يأتي الرجل أهله طروقا في حديث أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يطرق أهله ليلا وكان يأتيهم غدوة أو عشية أخرجه مسلم قال أهل اللغة الطروق بالضم المجيء بالليل من سفر أو من غيره على غفلة ويقال لكل آت بالليل طارق ولا يقال بالنهار إلا مجازا كما تقدم تقريره في أواخر الحج في الكلام على الرواية الثانية حيث قال لا يطرق أهله ليلا ومنه حديث طرق عليا وفاطمة وقال بعض أهل اللغة أصل الطروق الدفع والضرب وبذلك سميت الطريق لأن المارة تدقها بأرجلها وسمى الآتي بالليل طارقا لأنه يحتاج غالبا إلى دق الباب وقيل أصل الطروق السكون ومنه أطرق رأسه فلما كان الليل يسكن فيه سمى الآتي فيه طارقا وقوله في طريق عاصم عن الشعبي عن جابر إذا أطال أحدكم الغيبة فلا يطرق أهله ليلا التقييد فيه بطول الغيبة يشير إلى أن علة النهي إنما توجد حينئذ فالحكم يدور مع علته وجودا وعدما فلما كان الذي يخرج لحاجته مثلا نهارا ويرجع ليلا لا يتأتى له ما يحذر من الذي يطيل الغيبة كان طول الغيبة مظنة الأمن من الهجوم فيقع الذي يهجم بعد طول الغيبة غالبا ما يكره إما أن يجد أهله على غير أهبة من التنظف والتزين المطلوب من المرأة فيكون ذلك سبب النفرة بينهما وقد أشار إلى ذلك بقوله في حديث الباب الذي بعده بقوله كي تستحد المغيبة وتمتشط الشعثة ويؤخذ منه كراهة مباشرة المرأة في الحالة التي تكون فيها غير متنظفة لئلا يطلع منها على ما يكون سببا لنفرته منها وإما أن يجدها على حالة غير مرضية والشرع محرض على الستر وقد أشار إلى ذلك بقوله أن يتخونهم ويتطلب عثراتهم فعلى هذا من أعلم أهله بوصوله وأنه يقدم في وقت كذا مثلا لا يتناوله هذا النهي وقد صرح بذلك بن خزيمة في صحيحه ثم ساق من حديث بن عمر قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم من غزوه فقال لا تطرقوا النساء وأرسل من يؤذن الناس أنهم قادمون قال بن أبي جمرة نفع الله به فيه النهي عن طروق المسافر أهله على غرة من غير تقدم إعلام منه لهم بقدومه والسبب في ذلك ما وقعت إليه الإشارة في الحديث قال وقد خالف بعضهم فرأى عند أهله رجلا فعوقب بذلك على مخالفته، وأشار بذلك إلى حديث أخرجه بن خزيمة عن بن عمر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطرق النساء ليلا فطرق رجلان كلاهما وجد مع امرأته ما يكره وأخرجه من حديث بن عباس نحوه وقال فيه فكلاهما وجد مع امرأته رجلا ووقع في حديث محارب عن جابر أن عبد الله بن رواحة أتى امرأته ليلا وعندها امرأة تمشطها فظنها رجلا فأشار إليها بالسيف فلما ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يطرق الرجل أهله ليلا أخرجه أبو عوانة في صحيحه وفي الحديث الحث على التواد والتحاب خصوصا بين الزوجين لأن الشارع راعى ذلك بين الزوجين مع اطلاع كل منهما على ما جرت العادة بستره حتى إن كل واحد منهما لا يخفى عنه من عيوب الآخر شيء في الغالب ومع ذلك فنهى عن الطروق لئلا يطلع على ما تنفر نفسه عنه فيكون مراعاة ذلك في غير الزوجين بطريق الأولى ويؤخذ منه أن الاستحداد ونحوه مما تتزين به المرأة ليس داخلا في النهي عن تغيير الخلقة وفيه التحريض على ترك التعرض لما يوجب سوء الظن بالمسلم ."

(‌‌كتاب فضائل القرآن ثبتت، باب لا يطرق أهله ليلا، ج:9، ص:340، ط:دار المعرفة بيروت)

سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن زيد بن وهب، قال: أتي ابن مسعود، فقيل: هذا فلان تقطر لحيته خمرا، فقال عبد الله: إنا قد نهينا، عن التجسس، ولكن إن يظهر لنا شيء نأخذ به."

(‌‌أول كتاب الأدب، باب في الستر على المسلم، رقم الحديث:4890، ج:7، ص:252، ط:دار الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ظاهر الكنز وغيره اختيار القول بالمنع من الدخول مطلقا واختاره القدوري وجزم به في الذخيرة، وقال: ولا يمنعهم من النظر إليها والكلام معها خارج المنزل إلا أن يخاف عليها الفساد فله منعهم من ذلك أيضا ...... والذی ینبغی تحریرہ ان یکون له منعها عن کل عمل یؤدی الی تنقیص حقه أو ضرره."

(کتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب فی الکلام علی المؤنسة، ج:3، ص:603، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں