بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو مہر کے جلد مطالبے پر خود غرض کہنا


سوال

شوہر اگر بیوی سے کہے کہ آدھا مہر شادی پر اور آدھا شادی کے بعد ادا  کروں گا، لیکن بیوی کہے کہ مجھے پورا مہر شادی کے موقع پر چاہۓ تو اس کے جواب میں اگر شوہر اپنے بیوی کو خودغرض کہے تو کیا اس سے نکاح کو نقصان ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر کا اپنی بیوی کو مہر کی جلد ادائیگی کے مطالبے کے جواب میں اس کو خود غرض کہنے سے دونوں کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

البتہ یہ بات واضح رہے کہ مہر عورت کا حق  ہے جو  نکاح  کی  وجہ  سے شوہر کے  ذمے پر واجب ہوتا ہے،اور شریعت نے اس کی جلدادائیگی کی تاکید ہے،شریعت نے عورت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نکاح کے وقت اگر یہ شرط لگائے کہ مجھے پورا مہر معجل  (جلدی)  چاہیے تو  شوہر کو  وہ مہر جلدی ہی دینا پڑے گا،محض  اپنی مرضی سے  شوہر اس میں کلی یا جزوی طور پر تاخیر کی شرط نہیں لگاسکتا، جب تک کہ عورت (بغیر کسی جبر و اکراہ کے) اپنی دلی خوشی و رضامندی سے تاخیر یا تاجیل پر راضی نہ ہوجائے۔  اس معاملے میں عورت پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنا یا اس کو برا بھلا کہنےدرست نہیں۔

لیکن  اگر عورت بخوشی اس پر  راضی ہوجائے کہ مہر کا کچھ حصہ معجل (جلدی) ہو اور کچھ حصہ مؤجل (تأخیر) سے ادا کردیا جائے یا مکمل مہر  ہی مؤجل ّ(تاخیر) سے ادا کیا جائے تو  پھر شوہر کے  لیے مہر میں تاخیر کرنے کی گنجائش بھی ہوگی۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."

(الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین، کتاب الطلاق،ج3،ص230،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے :

"و أما إذا نصّا على تعجيل جميع المهر أو تأجيله فهو على ما شرطا حتى كان لها أن تحبس نفسها إلى أن تستوفي كله فيما إذا شرط تعجيل كله، و ليس لها أن تحبس نفسها فيما إذا كان كله مؤجلاً؛ لأن التصريح أقوى من الدلالة فكان أولى".

(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، باب المهر، 2/ 155، الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :

"قال: (وللمرأة أن تمنع نفسها، وأن يسافر بها حتى يعطيها مهرها) ؛ لأن ‌حقه ‌قد ‌تعين ‌في ‌المبدل، ‌فوجب أن يتعين حقها في البدل تسوية بينهما. وإن كان المهر كله مؤجلا ليس لها ذلك؛ لأنها رضيت بتأخير حقها."

(الاختيار لتعليل المختار، ‌‌كتاب النكاح، 3/ 108، الناشر: مطبعة الحلبي - القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100386

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں