بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو میکے لے جانا اور واپس لانا


سوال

میں نے پڑھا کہ شوہر پر لازم ہے کہ وہ دیانۃًاور اخلاقاً اپنی بیوی کو ہر مہینے میکے لےجائے،  تو کیا ان کے کہنے پر پھر وہاں چھوڑ آئے،  لیکن شوہر کا دل نہیں کرتا کہ وہ لے کے بھی جائے پھر وہاں چھوڑ کے آ جائے پھر لینے جائے تو یہ  معاملہ تو درست نہیں لگتا، اس بارےمیں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

کتبِ فقہ و فتاویٰ کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیوی کو اس کے والدین سے ملاقات کے لیے لے جانا شرعاً شوہر کی ذمہ داری نہیں اور نہ یہ شوہر پر شرعاً لازم ہے، شوہر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ بیوی کو دستور کے مطابق والدین سے ملاقات کی اجازت دے، لہذا اولاً بات یہی ہے کہ والدین اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے آئیں، اگر وہ بیٹی کے پاس ملاقات کے لیے آنے پر قادر نہ ہوں تو ایسی صورت میں بیٹی اپنے والدین کے پاس زیارت اور ملاقات کے لیے جائے، شوہر اس کی اجازت دینے کا پابند ہے، اور ہفتہ میں ایک مرتبہ ملاقات کا حق ہے، البتہ شوہر کی اجازت کے بغیر والدین کے گھر رہنے کا حق نہیں، ہاں اگر شوہر اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں، باقی زیرِ نظر مسئلہ میں اگر شوہر خوشی سے حسبِ روایت موقع بموقع بیوی کو اس کے والدین سے ملاقات کے لیے لے جایا کرے تو یہ اُس کی طرف سے احسان ہو گا، اس سے آپس میں محبت پیدا ہو گی، بگاڑ پیدا نہ ہو گا۔

نیز اگر بیوی کے والدین مسافتِ سفر کی دوری (یعنی سوا ستتر کلو میٹر) پر رہتے ہوں تو بیوی کے لیے تنہا سفر کرنا جائز نہیں ہو گا، شوہر یا کسی محرم کو ساتھ لینا ضروری ہو گا۔

مجمع الانہر میں ہے:

"(والصحيح أنه) أي الزوج (لا يمنعها من ‌الخروج ‌إلى ‌الوالدين ولا من دخولهما عليها في الجمعة) أي سبعة أيام (مرة) قيد للخروج والدخول كليهما.

(و) كذا لا يمنع (في) الدخول والخروج إلى محرم (غيرهما) أي غير الوالدين (في السنة مرة) قوله والصحيح احتراز عن قول محمد بن مقاتل فإنه قال لا يمنع المحارم في كل شهر وفي المختارات وعليه الفتوى وفي أكثر الكتب له أن يأذنها بالخروج لزيارة الأبوين والأقرباء والحج."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، جلد:1، صفحہ: 493، طبع: دار احیاء التراث العربی)

لسان الحکام میں ہے:

"وله أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من الدخول عليها ولا يمنعهم من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا لما فيه من قطيعة الرحم وليس عليه في ذلك ضرر وقيل لا يمنعهم من الدخول والكلام ويمنعهم من القرار لأن الفتنة في اللبث وتطويل الكلام وقيل لا يمنعها من ‌الخروج ‌إلى ‌الوالدين ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة وفي غيرهما من المحارم التقدير بسنة وهو الصحيح."

(الفصل الرابع عشر، صفحہ: 338، طبع: البابي الحلبي)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وفي «نوادر فضل بن غانم» عن أبي يوسف رحمه الله أنها لا تخرج إلى زيارة المحارم والأبوين إذا كانا يقدران على إتيانها، وإن كانا لا يقدران على إتيانها أذن لها في زيارتهما في شهرين بنحوه مرة، وذكر هذه المسألة في «النوادر» في موضع آخر، وقال: تذهب إلى الأبوين للعيادة إن مرضا أو مرض أحدهما ولا يمنعها الزوج عن العيادة، أما غير هذا فلا."

(کتاب النکاح، الفصل الثاني والعشرون، جلد:3، صفحہ:170، دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں