کیا شوہر بیوی کی جسمانی خدمت کر سکتا ہے؟ مثلًا سر کی مالش کرنا، بازو یا ٹانگیں دبانا، خصوصًا اس صورت میں جب بیوی بہت تھکی ہو؟
بہتر تو یہ ہے کہ اگر شوہر کی استطاعت ہو تو وہ اپنی بیوی کے لیے ایک خادمہ کا انتظام کرے؛ تاکہ وہ خادمہ گھر کے کاموں میں بھی اس کی بیوی کی مدد کرے اور ضرورت پڑنے پر جسمانی خدمت بھی کردے، لیکن اگر شوہر اس کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو کسی وقت ضرورت پڑنے پر (مثلًا بیماری وغیرہ کی وجہ سے) اگر شوہر کچھ جسمانی خدمت کرلے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن بیوی کے لیے شوہر سے مستقل بلا ضرورت ذاتی خدمت لینے کو فقہاءِ کرام نے پسندیدہ قرار نہیں دیا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 108):
"أما الحر فخدمته لها حرام لما فيه من الإهانة و الإذلال و كذا استخدامه عن نهر البدائع.
(قوله: فخدمته لها حرام) أي إذا خدمها فيما يخصها على الظاهر و لو من غير استخدام، يدل على ذلك عطف الاستخدام عليه ط (قوله: و كذا استخدامه) صرح به في البدائع أيضا و قال: و لهذا لايجوز للابن أن يستأجر أباه للخدمة. قال في البحر: و حاصله أنه يحرم عليها الاستخدام، و يحرم عليه الخدمة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200831
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن