بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کے پستان کو منہ میں لینے کا حکم


سوال

اگر شوہر اپنی بیوی کے پستان منہ میں لے کر چوس رہاہو، اسی دوران پستان سے دودھ نکلا اور شوہر کے منہ میں آیا تھا اور اس نے تھوک دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟  یا اگر اس نے جان بوجھ کر  پستان سے دودھ نکالا اور پی لیا یا بھولے سے حلق سے نیچے اتر گیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی؟ نیز کیا بیوی اپنے شوہر کے ذکر کو منہ میں لے سکتی ہے جب کہ منی منہ میں نہ نکالے اور بیوی بھی بخوشی لیتی ہو؟  کیا شوہر بیوی کی فرج کے دائیں بائیں بوس و کنار کر سکتا ہے اور کیا فرج کے اوپر بھی کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے بیوی سے جماع کرنے کے کچھ آداب متعین کیے ہیں، مثلاً: بقدرِ ضرورت ستر کھولنا، شرمگاہ کو نہ دیکھنا، بالکل ننگا ہوکر جماع نہ کرنا۔ ایک روایت میں ہے کہ  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی، دوسری حدیث میں  ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردہ کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کاستردیکھ سکتے ہیں، لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔

چناں چہ صورتِ مسئولہ میں شوہر کے لیے اپنی بیوی کے پستان چوسنا جائز ہے، مگر دودھ پینا حرام ہے، اگر منہ میں دودھ آجائے تو اسے تھوک دے، اور  اگر منہ میں دودھ آنے کا احتمال ہو تو ایسا نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس سے بیوی حرام نہیں ہوگی۔ نیز مرد وعورت کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹنا یا بیوی کے لیے شوہر کا ذکر منہ میں لینا مکروہ ہے اور یہ عمل  غیرشریفانہ اورغیرمہذب عمل ہے،میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کودیکھنابھی غیرمناسب ہے اورنسیان کی بیماری کاسبب بنتاہے ، پھر زبان جس سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے شرمگاہ کا بوسہ لینا وغیرہ کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا، نیز یہ جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے بہ ہرصورت ایک مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا أتى أحدكم أهله ‌فليستتر، ولا يتجرد تجرد العيرين»".

(کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع، 1/ 618، ط: دار إحیاء الکتب العربیة)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عائشة، قالت: «‌ما ‌نظرت، أو ما رأيت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط»".

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع،1/ 619، ط: دار إحیاء الکتب العربیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة".

(کتاب الکراهیة ، الباب الثلاثون فی المتفرقات، 5/ 372، ط: دارالفکر)

المحیط البرہانی میں ہے:

"إذا ‌أدخل ‌الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلا يليق به إدخال الذكر فيه، وقد قيل بخلافه".

(کتاب الاستحسان و الکراهیة، الفصل الثانی و الثلاثون فی المتفرقات، 5/ 408، ط: دارالکتب العلمیة بیروت لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"مص رجل ثدي زوجته لم تحرم۔۔۔

 (قوله: مص رجل) قيد به احترازاً عما إذا كان الزوج صغيراً في مدة الرضاع فإنها تحرم عليه".

(کتاب النکاح، باب الرضاع، 3/ 225، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ  میں ہے:

"‌‌‌لمس ‌فرج ‌الزوجة: اتفق الفقهاء على أنه يجوز للزوج مس فرج زوجته. قال ابن عابدين: سأل أبو يوسف أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا؟ قال: لا، وأرجو أن يعظم الأجر. وقال الحطاب: قد روي عن مالك أنه قال: لا بأس أن ينظر إلى الفرج في حال الجماع، وزاد في رواية: ويلحسه بلسانه، وهو مبالغة في الإباحة، وليس كذلك على ظاهره. وقال الفناني من الشافعية: يجوز للزوج كل تمتع منها بما سوى حلقة دبرها، ولو بمص بظرها وصرح الحنابلة بجواز تقبيل الفرج قبل الجماع، وكراهته بعده."

(الاحکام المتعلقة بالفرج، 32/ 91، ط: وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیة الکویت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

 "بے شک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے، ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرم گاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے۔ غور کیجیے! جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل  کیسے گوارا کرسکتاہے؟"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 10/ 178،  ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں