ایک آدمی نے بوقت نکاح بیوی کے حق مہر میں ایک کواٹر متعین کیا،یہ کواٹر شوہر کی ملکیت میں تھااور نکاح نامہ میں دو گواہوں کی موجودگی میں لکھوا بھی دیا،بعد میں بیوی یہ مکان شوہر کو فروخت کرتی ہے،شوہر اس مکان کی قیمت خود متعین کرتا ہے،جب کہ بیوی کہتی ہے،قیمت ثالث سے مقرر کروائی جائے،آیا شوہر کا بیوی پر مکان کی قیمت خود متعین کرکے جبر کرنا درست ہے یا نہیں؟اور کیا بیوی مذکورہ مکان کسی دوسرے شخص کو فروخت کرسکتی ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ جب بیوی کے لیے مہر میں گھر دے دیا جائے تو وہ بیوی کی ملکیت بن جاتا ہے،اس میں بیوی کے اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں،اگر شوہر بیوی سے مذکورہ مکان خریدنا چاہے،تو اس کے لیے بیوی کی رضامندی ضروری ہے،شوہر اگر کم قیمت لگائے اور بیوی اس پر راضی نہ ہوتوشوہر کے لیے اس کو لینا جائز نہیں،اگر بیوی شوہر کومکان فروخت نہیں کرنا چاہتی بلکہ کسی اورکوفروخت کرنا چاہتی ہے،تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ اپنا مکان جسے چاہے فروخت کرے۔
صورتِ مسئولہ میں شوہر کا بیوی کے مکان کی قیمت خود متعین کرنا جب کہ بیوی اس پر راضی نہ ہو جائز نہیں۔
اگر بیوی اپنا مکان شوہر کے بجائے کسی دوسرے کو فروخت کرنا چاہے،تو اسے اختیار ہے،جسے چاہے فروخت کرے۔
قرآن پاك ميں هے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ."(النساء 29)
ترجمہ: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔( بیان القرآن)
مشكاة المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."
ترجمہ:" جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا اچھی طرح سنو، کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں۔"( مظاہر حق)
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، 889/1، ط: المكتب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فمبادلة المال بالمال بالتراضي."
(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج: 3، ص: 2، ط: دارالفکر)
مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:
"(المادة 175) بما أن المقصد الأصلي من الإيجاب والقبول هو تراضي الطرفين ينعقد البيع بالمبادلة الفعلية الدالة على التراضي."
(الكتاب الأول في البيوع، الباب الأول، الفصل الأول، ص: 36، ط: كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
دررالحکام فی شرح مجلہ الأحکام العدلیہ میں ہے:
"ينعقد بالإيجاب والقبول اللفظيين لدلاتهما على التراضي فكذلك ينعقد البيع بالمبادلة الفعلية التي تدل عليه أيضا."
(الكتاب الأول في البيوع، الباب الأول، الفصل الأول، 143/1، ط: دارالجیل)
وفيه ايضاً:
"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار. فعليه إذا أراد شخص أن يبني بناء محاذيا لحائط بناء إنسان فليس له أن يستعمل حائط ذلك الشخص بدون إذنه حتى ولو أذنه صاحب الحائط فله بعدئذ حق الرجوع عن إذنه."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ 96، ج: ا، ص: 96،ط: دارالجیل)
مجله الأحکام العدلیہ میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء."
(الكتاب العاشر: الشركات، الباب الثالث، الفصل الأول، ص: 230، ط: كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101783
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن