بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کے لیے وصیت کرنا


سوال

 میری بہن جو کہ عدت میں ہیں اور میرے بہنوئی ایک رہائشی گھر چھوڑ کر گئے ہیں جو کہ اب میری بہن کی رہائش میں ہے اور  اس کے علاوہ ایک فلیٹ اور میری بہن کا سارا زیور بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے ایک ایسا گھر یا دوکان خریدنا چاہتے تھے جو ذریعہ معاش ہوسکے وہ رقم جو کہ 20  لاکھ کے قریب ہے محفوظ ہے، اور وہی میری بہن کا کل اثاثہ ہے، انہوں نے انتقال سے پہلے یہ زبانی وصیت بھی کی تھی کہ اس رقم کو میرے مرنے  کے بعد ذریعہ معاش بنانا،  اب کیا وہ رقم میری بہن استعمال میں لے سکتی ہیں، ان کے بچوں اور اپنی کفالت کے  لیے نیز اس پر قربانی واجب ہوتی ہے کہ نہیں ؟

جواب

آپ کے بہنوئی جو وصیت کی ہے یہ وصیت وارث کے لیے کی گئی ہے اور  وارث کے لیے کی گئی وصیت دیگر تمام بالغ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، اگر تمام بالغ ورثاء اس کی اجازت دے دیں تو وصیت نافذ ہو گی ورنہ باطل ہو گی، اگر ورثاء میں نابالغ بچے ہیں تو  ایسی صورت میں بچوں کے حصے میں  وصیت باطل ہی سمجھی جائے گی، اگر وصیت قابلِ نفاذ ہو اور تمام  بالغ ورثاء اجازت دے دیں تو  بیوی یہ رقم استعمال کر سکتی ہے، ورنہ تمام  ورثاء میں قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہو گا، یاد رہے کہ جو رقم بیوی کے زیور کو بیچ کر حاصل کی گئی ہے  (اگر بیوہ نے یہ زیور شوہر کو مالکانہ حقوق کے ساتھ نہیں دیے تھے تو) وہ رقم بیوی ہی کی ملکیت ہے، وہ ورثاء میں تقسیم نہیں ہو گی، اور  تقسیمِ وراثت سے قبل ہی بیوی اُس کو استعمال کرنے کا پورا حق رکھتی ہے۔

اور اگر مرحوم کے ورثاء میں صرف بیوہ اور مرحوم کے بچے ہی ہیں تو بیوہ اس رقم  کو اپنی اور بچوں کی کفالت میں میراث کے حصص کے بقدر صرف کرسکتی ہے، ہاں اگر اولاد میں سے کوئی عاقل بالغ ہو اور اپنے حصے کا مطالبہ کرے تو وہ اسے ادا کرنا ضروری ہوگا۔

باقی جو مکان آپ کے بہنوئی چھوڑ کر گئے ہیں اگر وہ مکان انہوں نے اپنی زندگی میں بیوی کو مالکانہ حقوق کے ساتھ دے دیا تھا جب کہ اُن کی رہائش اس وقت کسی دوسرے مکان میں تھی تو یہ گفٹ درست ہوا، یہ مکان آپ کی بہن کی ملکیت ہے اور یہ ترکہ میں شمار نہیں ہو گا، لیکن اگر اس مکان میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے اور اس مکان سے متعلق کوئی صراحت نہیں کی ہے کہ یہ مکان بیوی کو دیتا ہوں تو یہ مکان شوہر کا ترکہ شمار ہو گا اور تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا، اسی طرح اگر اس مکان میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہونے کی حالت میں بیوی کو گفٹ کیا تھا تو ایسی صورت میں بھی یہ مکان شوہر ہی کا ترکہ شمار ہو کر تمام ورثاء میں تقسیم ہو گا۔

میراث کی جب تک تقسیم نہ ہو، وہ ورثاء کی ملکیت نہیں سمجھی جاتی، کیوں کہ میراث کا مال فقہی اصطلاح میں "دینِ ضعیف" ہے، اور دین ضعیف جب تک ملکیت میں نہ آجائے اس وقت تک آدمی اس کا مالک نہیں سمجھا جاتا؛ لہٰذا اگر عید الاضحٰی تک میراث تقسیم نہیں ہوئی تو ترکے کا مال ورثاء کی ملکیت نہیں ہوگا، اور نصاب میں شامل نہیں ہوگا، لہٰذا اس صورت میں اگر آپ کی بہن پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو ان پر قربانی واجب ہوگی، نیز اگر انہوں نے مذکورہ زیور شوہر کو مالکانہ حقوق کے ساتھ نہیں دیا تھا تو زیور کی رقم چوں کہ سائل کی بہن کی ملکیت ہے، لہٰذا وہ بہر صورت ان کے نصاب میں شامل ہوگی، لہٰذا اگر یہ رقم اور اس کے علاوہ ضرورت سے زائد رقم یا سونا یا چاندی یا ضرورت و استعمال سے زائد کوئی بھی سامان موجود ہو، اور اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو آپ کی بہن صاحبِ نصاب شمار ہوں گی۔

اور اگر عید الاضحٰی سے پہلے میراث کی تقسیم ہوگئی تو ہر وارث کو ملنے والا حصہ اس کی ملکیت سمجھا جائے گا، لہٰذا اگر وہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا میراث کا حصہ شامل کرکے عید الاضحٰی کے دنوں میں صاحبِ نصاب بن جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں