بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو نہ ساتھ رکھنے اور نہ آزاد کرنے کی صورت میں فسخِ نکاح کا طریقہ


سوال

میری شادی 13 ستمبر 2021کو ہوئی، شادی کے بعد میں راولپنڈی چلی گئی،  وہاں 17 ستمبر2021 سے لے کر 4 اکتوبر تک میں اپنے شوہر کے ساتھ ان کے بڑے بھائی کے گھر  پر رہی،  اس کے بعد میں اپنے گھر آئی جہاں میں  دوسرے جیٹھ اور جیٹھانی کے ساتھ  رہی،  پھر ہم 5 اکتوبرکو کراچی آئے اور 8 اکتوبر کو واپس راولپنڈی گئے،  اس کے بعد میں  اپنی نند کے گھر اٹک چلی گئی، جب کہ میرے شوہر مجھے میری رضامندی کے بغیر میری نند کے گھر چھوڑ کر  خود واپس پنڈی چلے گئے اور میں اپنے سسر کے ساتھ اپنے نند کے گھر رہی،  اس کے بعد 15 اکتوبرکو میں واپس پنڈی چلی گئی، پھر کچھ دن بعد  کراچی  اپنی والدہ کے گھر آئی،  8 نومبر کو میرے شوہر کا رویہ مجھ سے بدلنا شروع ہوگیا اور شوہر خود اور اس کی بہن جو کراچی میں رہتی ہے، کہنے لگے کہ  یہ لڑکی بدتمیز ہے،  بددماغ ہے،  اس کو شوہر کی عزت کرنا نہیں آتی، میری نند مجھ سے کہتی ہےکہ آپ کے اور ہمارے درمیان  کوئی مطابقت نہیں ہے، لہٰذا آپ میرے گھر اب نہ آئیں، اس کے بعد میرے شوہر نے مجھے واپس پنڈی لے جانے سے انکار کیا اور کہا کہ  اب تم اپنی ماں کے گھر رہو گی، تمہارا سامان میں واپس بھیج دوں گا، 24 نومبر کو مجھے خون آنا شروع ہوا،  جس سے میرا حمل ضائع ہوگیا،  میری یکم اکتوبر کو ماہواری کے دن  شروع ہونے تھے لیکن وہ نہیں ہوئے اور 24 نومبر  سے شروع ہوگئے،  اس کے بعد میرے سسر ال اور میرے شوہر کی طرف سے مجھ پر الزام لگا کہ  تم نے از خود اسقاطِ حمل کروایا ہے، جب کہ میں نے نہیں کروایا تھا،  (میڈیکل ثبوت بھی ہے کہ اتنے کم عرصہ میں اسقاطِ حمل نہیں ہوتا) لہٰذا ان کا یہ الزام مجھ پر بے بنیاد ہے، اس کے بعد  اس نے مجھ سے ڈاکٹر کے کا ایڈریس اور رپورٹ مانگنا شروع کی، کہ ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا،  ورنہ ساری زندگی اپنی ماں کے گھر رہوگی،  اور کہا کہ تم اور تمہاری ماں قاتل ہیں، تم نے مجھ سے جان چھڑانے کےلیے یہ سب کیا، تاکہ تم کہیں اور شادی کرلو، اب میں نہ تم کو چھوڑوں گا، اور نہ ساتھ رکھوں گا، اب ساری زندگی ماں کی گھر رہوگی، اب میں تمہیں کبھی قبول نہیں کروں گا، تجھے تمہاری انفرادی زندگی میں  کبھی سکون سے نہیں رہنے دوں گا،  یہ میرا تم سے وعدہ ہے، پھر 25 نومبر کو اس نے مجھ سے آکر وہ لاکٹ اور چین لے لیا، جو کہ سونے کے تھے اور منہ دکھائی  میں دیے تھے، اور ساتھ ہی مجھ سے ایک پرچی پر زبردستی سائن کروایا کہ جو سامان  اس پر چی پر لکھا ہے  اس کے علاوہ  میں کسی اور چیز کا ان پر دعویٰ نہیں کرسکتی، اس واقعہ کے بعد میری ساس نے مجھ  سے فون پر کہا کہ میرا بیٹا اب تمہارے خلاف  پولیس اور کورٹ میں کاروائی کرےگا اور ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے، تم جانو اور تمہارا شوہر۔ پھر میں نے شوہر سے پوچھا کہ  مجھے قبول نہیں کروگے؟ تو اس نے کہا کہ نہیں، نہیں اب کبھی بھی نہیں کروں گا، اور کسی صورت  میں قبول نہیں کروں گا اور اگر اس طرح کی کوئی غلط فہمی ہے تو   ذہن سے نکال دو، تمہیں اب اپنے ساتھ کبھی نہیں لے کر جاؤں گا،  تم اب ساری عمر میری بیوی بن کر اپنی ماں کے گھر رہوگی،  میرے ساتھ تم نہیں بسی ہو، کسی اور کے ساتھ بھی بسنے نہیں دوں گا۔

اس کے بعد نہ میرے سسرال والوں نے مجھ سے کوئی رابطہ کیا، نہ شوہر نے سوائے دھمکیوں کے اور اب مجھے یہ بھی معلوم نہیں  کہ وہ اب کہاں ہے؟ نہ نان ونفقہ دے رہا ہے اور نہ حقوق زوجیت ادا کررہاہے۔

اس ساری صورتِ حال کے پیشِ نظر  میں عدالت سے جو خلع لوں گی، وہ شرعاً معتبر ہوگی یا نہیں؟ اور اس صورتِ حال میں میرے لیے  کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان حقیقت پر مبنی ہو تو اولاً سائلہ کو چاہیے کہ اپنے خاندان کے  سمجھدار ودیانت دار بڑوں کوبیچ میں ڈال کرافہام وتفہیم کے ساتھ اس مسئلہ کوختم  کرنےکی کوشش کرے، اگر کوشش کے باوجود بھی مصالحت کی کوئی راہ نہ بن پائے ،اور شوہر نہ گھر بسانا چاہتا ہو  ،نہ نان ونفقہ دیتا ہو ،اور سائلہ کےلیے اسی حالت میں عفت وپاک دامنی کے ساتھ  رہنا مشکل ہو،  جس کی وجہ سے جدائی ناگزیرہو تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے شوہرسے طلاق کا مطالبہ کرے اور سائلہ کے شوہر کو بھی چاہیے کہ معاملے کو لٹکاکر رکھنے کے بجائے اپنی بیوی کو عزت سے طلاق دے کر آزاد کردے، معاملہ کو لٹکاکر رکھنا اور بیوی کو ازیت دینا شوہر کے  لیے جائز نہیں ، تاہماگرشوہرطلاق نہ دےتوسائلہ اپنے مہرکی معافی کے عوض شوہرکوخلع  لیے آمادہ کرے ۔

اور  اگر نباہ کی بھی  کوئی صورت نہ بن پائے اور شوہر طلاق بھی نہ دے اور نہ ہی خلع پر راضی ہو، تو  سائلہ  کسی مسلمان جج کی عدالت میں نان نفقہ نہ دینے اور حقوق زوجیت اد ا نہ کرنے کے بنیادپرفسخِ نکاح کامقدمہ دائرکرے، اس کے بعد عدالت میں  دو شرعی گواہوں کے ذریعے اپنے نکاح کوثابت کرے، اس کے بعداپنے شوہرکے تعنت یعنی نان ونفقہ نہ دینے اورحقوق زوجیت ادا نہ کرنے کودوگواہوں کے ذریعے ثابت کرے کہ شوہرنہ گھربسانے پرآمادہ ہے،نہ ہی نان ونفقہ  دیتاہے اورنہ ہی خود اس کے پاس اس کاانتظام ہے، اس کے بعدعدالت شوہرکو حاضرہونے کاحکم دے گی، اگرشوہرعدالت میں حاضرہوکرنان ونفقہ دینے اورگھربسانےپرآمادہ ہوجائے تو فبہا، اور اگر وہ حاضرنہ ہویاحاضرہوکرحقوق زوجیت ادا کرنے اورنان ونفقہ دینے  کے لیے تیار نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں عدالت کونکاح فسخ کرنے کااختیار حاصل ہوگا ، عدالت کے فسخِ نکاح کا فیصلہ سنا نے کے بعدسائلہ  عدت (تین ماہواریاں) گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکے گی۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَٱبْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًامِّنْ أَهْلِهَآ إِنْ يُّرِيْدَآ إِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ ٱللّٰهُ بَيْنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيْرًا (٣٥)(سورة النساء)".

ترجمہ:اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو،اگروہ دونوں اصلاح کراناچاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدافرمادے گا،بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اورہر بات کی خبر ہے۔                                  

(آسان ترجمہ قرآن:ج،1:ص:264:طبع جدید)

وفیہ ایضاً:

"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ ٱللّٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِ.(سورة البقرة: 229)".

ترجمہ:چنانچہ اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں کےلئے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت مالی معاوضہ دے کرعلیحدگی حاصل کرلے۔

(آسان ترجمہ قرآن:ج،1:ص،144:طبع جدید)

بدائع الصنائع ميں  ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد علي الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول".

(کتاب الطلاق، فصل واماالذی یرجع الی المرأۃ، ج:3، ص:145، ط:دار الکتب)

 الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف  ميں ہے:

"قوله (فإن ‌امتنع ‌من ‌الحضور: سمعت البينة، وحكم بها في إحدى الروايتين) . وهو المذهب. اختاره أبو الخطاب، والشريف أبو جعفر. وقدمه في الفروع. وهو ظاهر ما جزم به في الرعاية الصغرى، والحاوي الصغير".

(باب طريق الحكم وصفته، ج:11، ص:238، ط:داراحیاء)

فتاوى شامى ميں  ہے:

"والحاصل أن التفريق بالعجز عن النفقة جائز عند الشافعي حال حضرة الزوج وكذا حال غيبته مطلقا أو ما لم تشهد بينة بإعساره الآن كما علمت مما نقلناه عن التحفة ... «وعليه يحمل ما في فتاوى قارئ الهداية حيث سأل عمن غاب زوجها ولم يترك لها نفقة. فأجاب: إذا أقامت بينة على ذلك وطلبت فسخ النكاح من قاض يراه ففسخ نفذ وهو قضاء على الغائب، وفي نفاذ القضاء على الغائب روايتان عندنا، فعلى القول بنفاذه يسوغ للحنفي أن يزوجها من الغير بعد العدة".

(باب النفقة، مطلب فی فسخ النکاح بالعجز، ج:3، ص:92،591، ط:سعید)

 (ملخص از حیلہ ناجزہ، صفحہ نمبر72 ، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں