بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو غسل وکفن دینا ہاتھ لگانا اور قبر میں اتارنا


سوال

 آیا اہلیہ کا انتقال ہوجانےکےبعد اس کو شوہر غسل یاکفن دےسکتاہے ؟ یا اس کو ہاتھ لگا سکتا ہے جیسے پیشانی پر بوسہ دینا ؟ یا قبر میں اتار سکتا ہے ؟ 

جواب

بیوی کے انتقال کے بعد شوہر بیوی کو صرف  دیکھ سکتا ہے۔ ہاتھ لگانے، بوسہ دینے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں،نیز شوہر کا اپنی بیوی کو اس طرح قبر میں اتارنا کہ بیوی کے جسم کو ہاتھ نہ لگے تو یہ جائز ہے،تاہم دوسرے محارم( باپ، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ میں سے)کوئی موجود ہوں تو ان کا حق زیادہ ہے۔

فتاوی شامی   میں ہے :

"(ويمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إليها على الأصح) منية.

(قوله ويمنع زوجها إلخ) أشار إلى ما في البحر من أن من شرط الغاسل أن يحل له النظر إلى المغسول فلا يغسل الرجل المرأة وبالعكس. اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:198،سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عورت کو اس کا شوہر قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

سوال[4192] : شوہر کی حیات میں اگر عورت کا انتقال ہوجائے تو مرحومہ حلقہ شوہریت سے نکل جاتی ہے یا نہیں اور مرد کا بحیثیتِ نا محرم ہونا درست ہے یا نہیں؟ نیز حقیقی محرم جیسے باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ کی موجودگی میں شوہر مذکور مرحومہ کو قبر میں اتار سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلیاً:

انتقال سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، ہاتھ نہیں لگا سکتا، البتہ دیکھنا درست ہے۔ جب محرم باپ، بھائی وغیرہ موجود ہوں تو تو وہ مقدم ہیں، وہی قبر میں اتاریں، شوہر کو بھی اتارنا اور جنازہ کو ہاتھ لگانا درست ہے۔"

(باب الجنائز، ج:9، ص:63، ط:ادارۃ الفاروق) 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وذو الرحم المحرم أولى بإدخال المرأة من غيرهم، كذا في الجوهرة النيرة وكذا ذو الرحم غير المحرم أولى من الأجنبي فإن لم يكن فلا بأس للأجانب وضعها، كذا في البحر الرائق، ولا يدخل أحد من النساء القبر، كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلاۃ،الباب احادی والعشرون فی الجنائز،الفصل السادس فی القبر والدفن والنقل،ج:1،ص:166،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510102006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں