بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکوۃ ادا کرنے کا حکم


سوال

 مجھے شادی میں کچھ جہیز اور کچھ حق مہر کی صورت میں سونا ملا، جو کہ تقریباً تیس تولہ بنتا ہے۔ جس کی زکوۃ مجھے ہر سال ادا کرنی ہوتی ہے، میری کوئی ذاتی کمائی نہیں ہے، شوہر جیب خرچ دیتے ہیں اگر وہ بھی پورا سال جمع کرکے زکوۃ دوں تو بھی اتنی رقم جمع نہ ہو پائے گی، اگر زیور بیچ کر زکوٰۃ ادا کروں تو میرے شوہر زیور بیچنے کی مخالفت کرتے ہیں اور پچھلے سال سے بخوشی میرے زیور کی زکوٰۃ دے رہے ہیں، کیا اس طرح زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟ اور کیا یہ ان کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ اُسی شخص پر لازم ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو، اگر بیوی نصاب کی مالک ہے تو اس کی زکوۃ اُسی  پر لازم ہو گی، شوہر پر لازم نہیں ہو گی،  لیکن عام طور پر  چوں کہ عورتیں گھر کے کام کاج سنبھالتی ہیں، کمانے کے لیے نہیں نکلتیں،  کمانے کے لیے مرد نکلتے ہیں، اور یہی تقاضائے فطرت بھی ہے، اس  لیے عموماً شوہر ہی بیوی کی طرف سے زکوٰۃ ادا کر  دیتے ہیں، تو ایسی صورت میں شوہر کے لئے بیوی کی طرف سے زکوٰۃ کی ادائیگی سے پہلےاس  کے علم میں لانا ضروری ہے،تاکہ بیوی زکوٰۃ کی ادائیگی کی نیت کر لے ،کیونکہ نیت کے بغیر زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی یا پہلے سےبیوی اجازت دے دے کہ میری طرف سے زکوٰۃ ادا کردیں تو عین موقع پر بتائے بغیر بھی زکوٰۃ دینے سے ادا ہوجائے گی، تاہم ایسا کرنا شوہر پر لازم نہیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کا شوہر سائلہ کی اجازت سے ،یا سائلہ کے علم میں لا کر  (تاکہ زکوۃ کی نیت کر لے ) سائلہ کے زیورات کی زکوۃ ادا کر رہا ہے،تو ایسی صورت میں سائلہ کی طرف سے زکوۃ ادا ہو جائے گی،اور یہ شوہر کی طرف سے سائلہ پر احسان ہے،اس احسان کرنے کا ثواب شوہر کو ملے گا اور ایک مرتبہ اجازت لینا کافی ہے، ہرسال علیحدہ اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الزكوة واجبة علي الحر العاقل البالغ المسلم اذا بلغ نصابا ملكا تاما و حال عليه الحول."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:217، ط:ادارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل ونوى عند دفع الوكيل جاز كذا في الجوهرة النيرة وتعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل كذا في معراج الدراية فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، ولم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولذا لو امر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید، وکذا في البحر، ج:2، ص:212، ط:سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144308100981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں