بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی مسجد کے اوپر امام اور موذن کے لیے رہائش گاہ بنانا


سوال

 الحمد اللہ ہمارے علاقے میں ایک نیا مکان خریدا گیاہے، وہاں موجود  مکان کو مسجد نما بنانے کی کوشش کی گئی ہے یعنی ٹائل لگائی گئی ہے، منارہ وغیرہ بنایا گیا ہے، یہ جگہ زمینی  منزل، پہلی منزل اور دوسری منزل پر مشتمل ہے ، دوسری منزل پر دو چھوٹے کمرے بھی ہیں، ان کمروں کے بارے میں سوچا گیا ہے کہ ان کو امام یا موذن کی رہائش کے لیے استعمال کیا جائے۔

اس علاقے میں اہل حق کی مساجد دور ہیں ، محلے والوں میں سے کچھ لوگ اس مسجد کے حق  میں نہیں ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ  مسجد کی حفاظت اور نگرانی   کے لیے وہاں ایک فیملی کی رہائش ہو ، تا کہ حاسدین وغیر ہ اگر عدالت میں کیس کرتے ہیں تو بتایا جاسکتا ہے کہ یہ گھر ہے، یہاں رہائش بھی ہے ، نیز امام صاحب فجر کی نماز میں اور دیگر نمازوں میں وقت پر پہنچیں، اذا ن وقت پر  ہو ، اس کے لیے امام صاحب اور مؤذن کی دوسری منزل پر رہائش کی ترتیب بن جائے۔

سوال یہ ہے کہ متولی حضرات مسجد شرعی کی نیت  اس طرح کرنا چاہتے ہیں کہ گراؤنڈ فلور اور پہلی منزل تومسجد ہو اور دوسری منزل مسجد نہ ہو ، تا کہ دوسری منزل پر اما م صاحب یا موذن کی  رہائش کا انتظام ہو جائے ، اور اسی  دوسری منزل پر حفظ کے بچے پڑھ سکیں گویا  وہ  مدرسہ کہلائے  تو آیا یہ جگہ مسجد شرعی ہوگی یا نہیں ،  یعنی وہاں اعتکاف وغیرہ ہوسکے گا یانہیں؟ 

وضاحت: یہ مکان   چندہ کے پیسوں سے مسجد شرعی  بنانے کے لیے خریدا گیاہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب   مذکورہ مکان  لوگوں کے چندہ سے خریدا گیاہے اور لوگوں نے مسجد کے نام پر چندہ دیےہیں تو مذکورہ مکان کو شرعی مسجد بنانا لازمی ہے،  دوسری منزل میں مستقل طور پر مدرسہ بنانا اور امام وموذن کے لیے رہائش گاہ  بنانا جائز نہیں  ؛ کیوں کہ شرعی مسجد زمین سے لے کر آسمان تک ہوتی ہے، اور اگر مذکورہ مکان کی دوسری منزل کو مدرسہ کے لیے خاص کیا گیا یا امام وموذن کے لیے مستقل طور پر رہائش گاہ بنایا گیا تو پھر مذکورہ جگہ شرعی مسجد نہیں ہوگی، بلکہ صرف مسجد یعنی جائے نماز اور مصلے ہوگا اور وہاں اعتکاف کرنا جائز نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد  (قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك."

[كتاب الوقف، فرع بناء بيتا للإمام...ج:4، ص:358، ط:سعيد]

وفیہ ایضا:

"(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء...(قوله الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه إلا في الكعبة لغير عذر...‌قوله ‌إلى ‌عنان ‌السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتا للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحا، نعم سيأتي متنا في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سردابا بالمصالحة جاز تأمل."

[كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة، ج:1، ص:656، ط:سعيد]

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں