بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی سے ناراض ہو کر ایک سال تک اس کے قریب نہ آنا اور ایلاء کا حکم


سوال

 اگر شوہر بیوی سے ناراض ہوجائے اور وہ کسی دوسرے ملک میں قیام پذیر ہے اور دھمکی بھی دے کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور وہ ایک سال تک اپنی بیوی کے پاس نہیں آتا،  اگرچہ اسے  ایلاء کا بھی نہیں پتا،  وہ اپنی بیوی کو اذیت کے طور پر اپنے بستر پر بھی نہیں  سلاتا تو کیا ایلاء کا حکم صادر ہوجائے گا؟

جواب

ایلاء قسم کھانے کو کہتے ہیں اورشریعت میں ایلاء کامطلب یہ ہے کہ شوہراپنی بیوی سے چار ماہ یااس سے زیادہ  مدت   کے لیے (یا مطلقًا) صحبت نہ کرنے  کی قسم کھائے۔

ایلاء کی صورت میں اگرشوہرچار ماہ کے اندربیوی  سے تعلقات قائم کرلیتا ہے توقسم کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کفارہ لازم ہوگا،اور کوئی طلاق واقع نہ ہوگی،البتہ اگرچارماہ گزرگئے اورشوہرنے رجوع نہ کیاتوایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔

لیکن اگر شوہر بیوی سے چار  ماہ یا اس سے زیادہ دور رہنے کی قسم نہیں کھاتا، بلکہ  قسم کھائے بغیر علیحدہ رہتا ہے تو   شرعًا یہ "ایلاء" شمار نہیں ہوگا،   تاہم شوہر کا بیوی سے دور رہنا  ،  اچھا سلوک نہ کرنا، تعلق قائم نہ  کرنا ،  نفقہ نہ  دینا   اور نہ ہی طلاق دینا، یہ شرعاً جائز نہیں ہے، بیوی کے بہت سے حقوق شوہر پر لازم ہیں، شوہر کا بیوی کو  نکاح کے بندھن میں رکھ کر  اس کو اذیت دینا انتہائی قبیح عمل ہے،  عورت کی رضامندی کے بغیر مدتِ ایلاء (یعنی چار ماہ) سے زیادہ  اس کا حق ادا نہ کرنا عورت کی حق تلفی ہے؛  لہذا مذکورہ شخص  کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی بیوی کو نکاح میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کے تمام حقوق ادا کرے، ورنہ ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کردے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء 129]

ترجمہ : اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو، گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے، تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو ( یعنی نہ توا س کے حقوق ادا کیے جائیں کہ خاوند والی سمجھی جائے اور نہ اس کو طلاق دی جائے کہ بےخاوند والی کہی جائے۔) اور اگر اصلاح کرلو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔(بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

’’۔۔۔ اور اے مردو!  اگر تم عورتوں کے ساتھ سلوک اور احسان کرو اور ان کی حق تلفی سے بچو تو  بے شک جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے، تمہیں اس کی جزا دے گا اور ہم تم کو بتلائے دیتے ہیں کہ تم متعدد بیبیوں کے درمیان پوری برابر ہرگز نہیں کرسکتے گو تم کتنا ہی چاہو یعنی جس شخص کی کئی بیبیاں ہوں تو یہ اس کی  قدرت اور اختیار سے باہر ہے کہ محبت اور میلانِ قلبی میں سب کو برابر رکھے؛ کیوں کہ جب صورت اور سیرت میں سب برابر نہیں تو سب کے ساتھ محبت کیوں کر ہوسکتی ہے، جب متعدد عورتوں میں پوری برابری نہیں کرسکتے تو ایسا بھی نہ کرو کہ بالکل اور ہمہ تن ایک ہی کی طرف جھک جاؤ اور دوسری بی بی کو معلق چھوڑدو، نہ بیوہ ہی ہے اور نہ خاوند ہی والی، نہ نکاح کرسکتی ہے  ا ورنہ شوہر سے فائدہ اٹھاسکتی ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر محبت اور میلانِ قلبی میں مساوات نہیں کرسکتے تو یہ بھی نہ کرو کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ میں بھی ایک ہی طرف کو جھک جاؤ، یہ تو تمہاری قدرت میں ہے کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ وغیرہ میں سب کے ساتھ یک ساں سلوک رکھو،  نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجودیکہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق تھیں، مگر پھر بھی تمام اَزواج کے حقوق برابر ادا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں اختیار کے موافق ہر ایک کا حق برابر ادا کرتا ہوں، مگر جو امر میرے اختیار میں نہیں یعنی قلبی محبت اس میں تو مجھ کو معذور  رکھ۔ اور اگر تم اصلاح کرلو یعنی گزشتہ میں جو بےانصافی کرچکے ہو اس کی تلافی کرلو اور آئندہ کے لیے عورت کے حق میں ناانصافی سے بچتے رہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے تمہاری گزشتہ کوتاہیوں اور خطاؤں کو معاف کردے گا اور اگر صلح اور موافقت کی کوئی صورت نہ ہوسکے اور میاں بیوی طلاق یا خلع کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اللہ ہر ایک کو کفایت کرے گا اپنی وسعت سے، یعنی خدا ہر ایک کا کارساز ہے مرد کو دوسری عورت مل جائے گی اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا اور روزی میں ایک دوسرے کا محتاج نہ رہے گا، اور ہے اللہ وسعت والا اور حکمت والا، اس کی توانگری اور رحمت بہت وسیع ہے اور اس کے تمام اَحکام حکمت پر مبنی ہیں،  اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اس کی ملک ہے جس کو جتنا چاہے دے، یہ اس کے واسع ہونے کی دلیل ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا وسعت ہوسکتی ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی کل چیزوں کا مالک ہے‘‘۔(معارف القرآن)

اور اگر شوہر حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا  تو  مذکورہ خاتون کے لیے اس سے طلاق یا  باہمی رضامندی سے خلع لینے کی اجازت ہے، اس سلسلے میں خاندان  کے معززین اور علاقہ کے باثر لوگوں کے تعاون سے مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 422):

'' (هو) لغةً: اليمين. وشرعاً: (الحلف على ترك قربانها) مدته ولو ذمياً، (والمولي هو الذي لا يمكنه قربان امرأته إلا بشيء) مشق (يلزمه) إلا لمانع كفر.۔۔۔۔ (وحكمه: وقوع طلقة بائنة إن برّ) ولم يطأ (و) لزم (الكفارة، أو الجزاء) المعلق (إن حنث) بالقربان. (و) المدة (أقلها للحرة أربعة أشهر، وللأمة شهران) ولا حد لأكثرها ۔۔۔ وألفاظه صريح وكناية، (ف) من الصريح (لو قال: والله) وكل ما ينعقد به اليمين (لا أقربك) لغير حائض، ذكره سعدي ؛ لعدم إضافة المنع حينئذ إلى اليمين، (أو) والله (لا أقربك) لا أجامعك لا أطؤك لا أغتسل منك من جنابة (أربعة أشهر)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں