بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی سے بات چیت، پیارومحبت نہ کرنا


سوال

 میری شادی کو تین سال ہوئے ہیں،  میرے شوہر میرے کزن ہیں،  شادی کے شروع میں وہ بہت اچھے تھے، پھر ایک ہفتے بعد وہ بدل سے گئے، وہ اب بھی اچھے ہیں،  پیسے وغیرہ دیتے ہیں،  ہر خرچہ پورا کرتے ہیں،  لیکن میرا سوال یہ ہے کہ وہ مجھ سے بات نہیں کرتے،  ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں،  لیکن کچھ بھی نہیں بولتے،  وہ مجھ سے بات نہیں کرتے،  صرف کھانا وغیرہ مانگتے ہیں، یہاں تک کہ حق زوجيت بھی کم ادا کرتے ہیں،  وہ میری کوئی بھی بات ہو اپنی امی کو بتاتے ہیں، ہم ایک کمرے میں اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں،  ہماری ایک بیٹی ہے،  مجھ سے پرسنل نہیں ہوتے اپنی کوئی بھی پرسنل بات مجھ سے شیئر نہیں کرتے،  مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟  میرے ساس سسر سب اچھے ہیں مجھے کوئی بھی تکلیف نہیں ہے،  صرف یہ تکلیف ہے کہ میرے  شوہر مجھ سے بات نہیں کرتے،  تین سال ہوگئے ہیں ہماری شادی کو  لیکن ان کے پیار اور محبت اور توجہ کے لیے ترس رہی ہوں،  برائے مہربانی آپ مجھے بتائیں میں کیا کروں؟

جواب

میاں بیوی کارشتہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کے دوام اور پختگی کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کالحاظ کرنااورباہمی الفت ومحبت کو قائم رکھنالازم اور ضروری ہے۔

چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :

"رسولِ  کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے  مخاطب(شخص) !تو نے نکاح کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہوگی جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان محبت کو زیادہ کرے۔"

 مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قرابت کے بے پناہ محبت والفت پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوں، اس درجہ کی محبت والفت پیدا کر دے۔

رسول اللہﷺکی سیرت ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ ہے،آں حضرت ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات اور خصوصاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہایت محبت رکھتے تھے اور یہ تمام صحابہ کو معلوم تھا،چنانچہ لوگ قصدًا اسی روز  ہدیے اور تحفے بھیجتے تھے جس روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام کی باری ہوتی۔(بخاری،باب فضل عائشۃ)

عموماً عصرکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواجِ مطہرات کے پاس خبرگیری کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں بہت کم ایساہواہوگاکہ(عصر کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اَزواج مطہرات کے پاس نہ گئے ہوں۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کے بعدبیوی کی خبرگیری اور اس کانان ونفقہ رہائش وغیرہ کی ذمہ داری شوہرپرہے،اگرشوہردن میں معاش کی غرض سے باہررہتاہوتو رات اپنے گھرپرگزارناضروری ہے،بلاضرورت گھرکے علاوہ کہیں اورقیام درست نہیں۔

اگرکوئی شخص اپنے کام کاج کی مصروفیات کے ساتھ اہل وعیال کاخیال رکھتاہو ان کی دیکھ بھال کرتا ہو اور ان کی ضروریات پوری کرتاہو، کسی شکایت کاموقع نہ دیتا ہو توایساشخص شرعی احکامات پرعمل پیرا شمار ہوگا،  بیوی بچوں کووقت دینااور ان کی خبرگیری مردپرلازم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے کہ آپ گھروالوں کے ساتھ گفتگو فرماتے،ان کی خبرگیری فرماتے، گھریلو کاموں میں ان کاہاتھ بٹاتے، ہنسی مذاق فرماتے، دل لگی  فرماتے ،اور ساتھ ہی دیگرتمام امور بھی سرانجام دیاکرتے تھے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت میں  ہمارے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ موجودہے۔

لہذا آپ کے شوہر کا آپ سے گفتگو نہ کرنا،غیرشرعی طرزِ عمل اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہے؛ اس لیے انہیں  شریعت اور رسول اللہﷺکے اسوۂ  حسنہ  کے مطابق اپنے گھر والوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آناچاہیے۔

 قرآنِ کریم اور احادیثِ  مبارکہ میں شوہر پر بیوی کے اور بیوی پر شوہر کے حقوق بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ان تعلیمات کا حاصل یہ ہے  کہ :

 بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے، اور شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا  کی ہوئی نعمت سمجھے،  اس کی قدر اور اس سے محبت کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے،  اپنی استظاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔

نیز آپس کے اتفاق  ومحبت کے لیے تقوی اور خوفِ خدا بنیاد ہے، نماز  اور شرعی احکام کا اہتمام کیا جائے ، ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی فکر کی جائے،باہمی معاملات میں صبر وتحمل سے کام لیا جائے۔

  آپ شوہر کی خوب خدمت کریں، انہیں خوش رکھنے کی پوری کوشش کریں، اور قرآن کریم کی مندرجہ  ذیل آیتِ مبارکہ کا ہر فرض نماز کے بعد 11بار ورد کرکے صدقِ دل سے دعا کریں:

﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں