میرے شوہر مجھ پر توجہ نہیں دیتے ، بس ناشتہ کرکے جاتے ہیں اور رات میں کام سے واپس آکر کھانا کھاتے ہیں اور پھر موبائل استعمال کرنے لگ جاتے ہیں، مجھ سے کوئی بات نہیں کرتے اور دوسری لڑکیوں سے بات کرتے ہیں، میں نے ان کو بہت مرتبہ سمجھایا ہے ، مگر وہ نہیں مانتے ، میں نے خود ان کو لڑکیوں سے باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، مجھے خرچہ میں بھی تنگ کرتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہوجاتے ہیں ، میرے دو بیٹے ہیں، ان پر بھی کوئی توجہ نہیں کرتے ، اپنی ماں کی بات زیادہ سنتے ہیں۔
اب میں ان کو چھوڑ کر اپنے گھر آچکی ہوں ، ان کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے اور مجھے لینے کے لیے آرہے ہیں، الگ ہونے کا بھی بول رہے ہیں، کرایہ کے گھر میں ، تو کیا مجھے ان کو موقع دینا چاہیے (یہ تیسرا موقع ہوگا) یا نہیں؟
واضح رہے کہ نامحرم عورت سے تعلقات، ملنا جلنا، ہنسی مذاق کرنا بلکہ بلاضرورت اس کو دیکھنا اور بات کرنا بھی جائز نہیں ہے، جب کہ شریعت مطہرہ میں نکاح کے بعد بیوی کے بہت سے حقوق، اس کا نان ونفقہ (خرچہ) اور رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ لازم ہے، جن کی ادائیگی شوہر کی ذمہ داری ہے، ان کی حق تلفی پر قیامت میں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا، ایک حدیث مبارک میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے“، اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں“۔ لہذا شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس رویہ اور سلوک سے اجتناب کرے، اور بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اور نامحرم عورت سے تعلقات ختم کرکے توبہ واستغفار کرے۔
نیز اگر سائلہ کا شوہر اپنی غلطی کا احساس کرکے اپنے رویہ میں تبدیلی لانے پر رضامند ہے اور گھر بسانا چاہتا ہے تو سائلہ کو بھی چاہیے کہ گھر بسانے کی پوری کوشش کرے، اور آپس کی رنجشیں، نااتفاقیاں باہمی مفاہمت سے حل کریں، اور آئندہ سائلہ بھی شوہر کے حقوق کا خیال رکھے، اس کی خدمت کرتی رہے، اور اس کے لیے بنے سنورے، ہر جائز امور میں شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتی رہے۔ الغرض جس حد تک ہوسکے نباہ کی پوری کوشش کرتی رہے۔
نیز چلتے پھرتے کثرت سے "يا لطيفُ، يا ودودُ" کا ورد کرتی رہے ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپس ميں محبت عطا فرما کر تمام مشکلات حل فرمائیں گے۔
قرآن مجید میں ہے:
"قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِك اَزْكى لَهُمْ اِنَّ ﷲَ خَبِيْرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ." [النور : 30]
ترجمہ : "آپ مؤمن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے، بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"
حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/282، باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."
(کتاب النکاح، فصل وجوب طاعة الزوج الخ،334/2، ط: دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101416
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن