میری شادی کو گیارہ سال ہو چکے ہیں ،شادی سے پہلے میں نے نادانی میں ایک لڑکے سے فون پہ بات کرلی ،لیکن جب شادی ہوئی تو غلطی کا احساس ہوا،یہ بات میرے شوہر کو پتہ چل گئی ،میں نے ان سے معافی مانگی اور اللہ سے رو رو کر معافی مانگی لیکن میرے شوہر میری غلطی معاف نہیں کرتے، مجھے بہت طعنے دیتے ہیں اور اس بات کا احساس دلایتے ہیں کہ میں نے غلطی کی ہے ،مجھے میرے والدین کے گھر نہیں جانے دیتے ،جب جانے کا کہوں تو منع کر دیتے ہیں، میری شادی کے بعد سے میری والدہ سے بات نہیں کرتے تھے اور اب میرے والد سے بھی بات نہیں کرتے ،میرے شوہر نشہ کرتے ہیں یہ بات میرے والد نے ان کے بھائی سے کی کہ اپنے بھائی کا علاج کروائیں، اس بات سے ناراض ہیں میرے والد سے ،مجھے مشورہ دیں کہ کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی ،سارا دن کام کرتے رہو سسرال والوں کو خوش کرتے رہو، لیکن خوش تو کوئی نہیں ہوتا، شوہر سے بھی پیار اور عزت نہیں ملتی، تو اس صورت حال میں میں کیا کروں۔
صورتِ مسئولہ میں نامحرم سےبات کرناگناہ ہےاورہرگناہ توبہ سےمعاف ہوجاتاہے،اورحدیث میں آتاہےاللہ توبہ کرنےوالےکوپسندکرتےہیں،سائلہ نےجب صدقِ دل سےتوبہ کرلی ہے،اس کےبعدبھی اگراس کاشوہر اسےاس گناہ کاعاردلاتاہےیاطعنہ زنی کرتاہے،تویہ طعنہ زنی بذات خودبڑاگناہ ہے،حدیث میں مسلمان کوعاردلانےسےاورطعنہ دینےسےمنع کیاگیاہے شریعتِ مطہرہ میں اس کی ممانعت وارد ہے، بلکہ احادیث کی رو سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس شخص کو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں لیکن گناہ کا طعنہ دینے والے کو خود اس گناہ میں مبتلا کردیا جائے، لہذا کسی مسلمان کو گناہ پر طعنہ دیناجائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی اصلاح کی غرض سے اس کو نصیحت کی جائے، جس سے وہ گناہ چھوڑدے، اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالا جائے، نہ کہ گناہ چھوڑنے والے شخص کو سابقہ گناہوں پر طعنہ دیا جائے،لہذا شوہرکوچاہیےکہ اس سےآئندہ کے لیے اجتناب کیا جائے،اگر اس قسم کی غلطی شادی سے پہلےشوہر سے ہوتی توکیاوہ کسی عورت سے شادی کرتا،کیاوہ بیوی کی طرف سےاپنے آپ پر طعنہ زنی کوبرداشت کرتا،لہذاشوہرکوچاہیےبیوی کو دل سے معاف کردےنیزشوہرکابیوی کواس کےوالدین کےساتھ ملنےسےمنع کرنایہ جائزنہیں ہے خاوندکایہ رویہ درست نہیں، غیر شرعی ہے، ہفتہ میں کم ازکم ایک مرتبہ والدین سے ملاقات کرنابیوی کاحق ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" (ولايمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار، ولو أبوها زمناً مثلاً فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافراً وإن أبى الزوج، فتح، (ولايمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول، زيلعي".
(باب النفقات،ج؛3،ص:602،ط؛ سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى."
( کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، الفصل الثانی (11/415) ط: دار الفکر)
قرآن کریم میں ہے:
"اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ."[البقرة:222]
ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)
سنن ابن ماجہ میں ہے :
"عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: التائب من الذنب كمن لا ذنب له."
(سنن ابن ماجه، باب ذكر التوبة، ج:5، ص:320، ط: دار الرسالة العالمية)
ترجمہ :’’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
وفیہ ایضاً:
"كلّ بني آدم خطاء، و خير الخطائين التوّابون."
(أخرجه ابن ماجه في سننه في باب ذكر التوبة ، ج:5، ص: 321، برقم (4251)، ط. دار الرسالة العالمية)
’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذيء."
(باب حفظ اللسان، الفصل الثاني، ج: 3، ص: 1362، ط: المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ :حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن طعنہ مارنے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور فحش گو نہیں ہوتا ہے“
شرح بلوغ المرام (الجزء الثامن) میں ہے:
من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله:
"وعن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم: « من عير أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله ». أخرجه الترمذي وحسنه، وسنده منقطع. بل سنده ضعيف جداً ولايكفي قوله: منقطع -رحمه الله- هو منقطع من رواية خالد بن معدان وهو لم يدرك معاذاً، لا شك أنه لم يدرك معاذاً، معاذ تقدمت وفاته -رضي الله عنه- وفيه أيضا علة من رواية محمد بن الحسن بن أبي يزيد الهمداني، وهو متروك ومنهم من اتهمه، الحديث ضعيف جدا من هذا الطريق من طريق خالد بن معدان عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه-. وجاء في حديث واثلة أيضا عند الترمذي: « لاتظهر الشماتة بأخيك فيعافيه الله ويبتليك ». وينظر في ثبوته، وهذا المعنى من جنس ما تقدم، يعني أن الإنسان حينما يعير أخاه بذنب هذا يدل على عدم النصح؛ لأن الواجب هو النصيحة لا التعيير، والتعيير والإشاعة بالقول أمر لايجوز، وهذه سيئة والسيئة أخت السيئة، والإنسان يبتلى بجنس السيئة التي وقع فيها من جهة أنه عير أخاه بهذا الذنب، وربما يكون أخوه معذوراً، وهو لايدري، قد يكون تاب، وقد يكون وقع هفوة. ثم أيضا الواجب النصح، حتى ولو فرض أنك تعلم أنه أصر فلا يجوز التعيير، ولهذا النبي عليه الصلاة والسلام قال: « إن زنت أمة أحدكم فليجلدها الحد ولايثرب عليها ». نهى عن التبكيت، فلايجوز، والنبي عليه الصلاة والسلام قال لما قال رجل وهو عبد الله حماراً الذي يلقب بحمار، جاء من عدة أخبار من البخاري وغيره، فقال رجل: أخزاه الله، قال: « لاتعينوا الشيطان على أخيكم ». وفي لفظ: "لعنه الله" فنهى عليه الصلاة والسلام وقال: « ما علمت أنه يحب الله ورسوله »، وهذا يبين أن الواجب هو النصح. ثم الإنسان إذا أذنب في ذنب إن كان فيه حد وقد أقيم عليه الحد فقد ارتفعت التبعة، فإن تاب فاجتمع له مطهرة، وإن كان ليس فيه حد فإن كان استتر فيه فلايجوز إشاعته ولاتستعير فالواجب أن تستره، وإن كان قد أظهره، فالواجب أن يسلك معه ما يسلك مع أمثاله من نصحه وتوجيهه، فإن أصر على المجاهرة، فلا يترك يعيث شراً وفساداً، أما التعيير فليس طريق إلى الإصلاح بل هو طريق إلى فساد، وأن يزيد من الولوع بهذا المنكر وهذا الذنب حينما يعير به ويعلم أنه قد ظهر واشتهر، وذنوب أهل الإسلام عيب في أهل الإسلام فالواجب عليه أن يسترها، ولهذا يقول النبي عليه الصلاة والسلام كما روى عقبة بإسناد جيد عقبة بن عامر -رضي الله عنه- لما دعي إلى قوم وقيل: إنهم يشربون الخمر، فقال: إن يبدو لنا أمر نأخذ به كما قال ابن مسعود -رضي الله عنه- ثم قال: « من رأى عورةً فسترها فكأنما أحيا موءودة » الله أكبر، شوف من رأى عورة، نكرة في سياق النفي يشمل كل عورة، وهذا يبين أن هذه الذنوب عورات والعورات الواجب سترها، ولا أقبح من العورات بين أهل الإسلام فالواجب على الإنسان أن يستر عورته وأعظم العورات هو الذنوب؛ لأن الله مطلع وحرمها، ثم تأتي أنت وقد يكون هذا الذي أذنب استتر فتعيره، فيكون ذنب الذي عير أعظم من الواقع فيها، وهذا قد يكون هو عين الإصابة في الذنب أو فعل الذنب؛ لأنه يكون إثمه أعظم، وربما يئول به أن يقع في مثل هذا الذنب، فلهذا جاء النهي عنه، نعم. (1) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2505). (2) الترمذي : صفة القيامة والرقائق والورع (2506). (3) البخاري : البيوع (2234) , ومسلم : الحدود (1703) , والترمذي : الحدود (1440) , وأبو داود : الحدود (4470) , وابن ماجه : الحدود (2565) , وأحمد (2/376) , ومالك : الحدود (1564) , والدارمي : الحدود (2326). (4) البخاري : الحدود (6777) , وأبو داود : الحدود (4477) , وأحمد (2/299). (5) البخاري : الحدود (6780). (6) أبو داود : الأدب (4891) , وأحمد (4/158)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101366
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن