بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو پردہ کرنے سے منع کرنا


سوال

میری عمر 23 سال ہے،  میری شادی کے وقت یہ بات واضح کردی گئی تھی کہ میں پردہ کروں گی، لیکن شادی کے کچھ ہی دنوں بعد میرے شوہر نے مجھے عبایہ اوڑھنے سے منع کردیا، ان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی  گئی، مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، جب میں نے پھر بھی کوشش کی تو بات طلاق تک پہنچ  گئی،  مجھے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ شوہر کی بات مان لوں اور صبر کروں۔ اب شادی کو دو سال ہو چکے ہیں اور میرے شوہر آج بھی مجھے پردہ کرنے نہیں دیتے،  نیز مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ تیار ہو کر شادی بیاہ میں جاؤں، (صرف سکارف پہنے کی اجازت ہے)۔  اگر میں انکار کروں تو بہت زیادہ جھگڑا  فساد ہوتا ہے، ان کے گھر والے بھی ان کو اس معاملے میں نہیں سمجھاتے، بلکہ ان کا ساتھ دیتے ہیں،  مجھے نقاب کی اجازت بالکل نہیں اور عبایا بھی بازار میں پہن سکتی ہوں، کسی کے گھر جاتے ہوئے یا کسی اور جگہ باہر نہیں، میرے دیور جیٹھ بھی ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور سب آپس میں پردہ کا خیال کرے بغیر مرد عورتیں ایک ساتھ  بیٹھتے  ہیں۔ میرے شوہر مجھے بس سر بڑے دوپٹے سے ڈھانپنے کو کہتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے یہ کافی نہیں۔ میرے میکے والے اس معاملے میں کوئی ساتھ نہیں دیتے؛ کیوں کہ وہاں بھی یہی ماحول ہے۔  مجھے معلوم ہے کہ پورے جسم پر بڑی چادر اوڑھنی  چاہیے اور چہرہ بھی چھپانا  چاہیے، لیکن مجھے اس بات سے روکا جاتا ہے۔ اور صاف کہہ  دیا جاتا  ہے اگر پردہ کرنا ہے تو خلع لے لو۔ وضاحت کیے دوں کہ ہماری اولاد نہیں ہے ،  میرے شوہر پردہ کے معاملے میں صحیح سوچ نہیں رکھتے اور اپنے کزن سے اسی طرح ہنسی مذاق کرتے ہیں،  نماز بھی با جماعت نہیں پڑھتے، بلکہ گھر میں پڑھتے ہیں۔ باقی اور کوئی ایسی بات نہیں جو ان کے دین یا اخلاق کے لحاظ سے بری ہو الحمد اللہ۔ کیا اس شادی میں رہ کر اور پردہ چھوڑ کر میں اللہ کی کی نافرمانی کر رہی  ہوں؟ کیا مجھے خلع لے کر اپنے دین کو ترجیح دینی چاہیے؟

جواب

 عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ 

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :

1-  شرعی حجابِ اشخاص،  یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ}    (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

2-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم قرآنی آیت {یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹)  میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف  آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

3-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ  نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے   {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔‘‘

(معارف القرآن، کاندھلوی رح)

رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی  اللہ عنہما آیتِ  قرآنی {یآیها النبي قل لا زواجك وبنا تك ونساء المؤمنین ید نین علیهن من جلابیبهن ذلك ادنی ان یعرفن فلایؤذین} کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

تفسير الألوسي = روح المعاني (11/ 264):

"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

یعنی خدائے پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ  یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔

نیز  بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔ ان سب نصوص سے معلوم ہوا کہ چہرے کا پردہ اصل میں تو قرآن وحدیث سے ہی ثابت ہے؛ لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے  (خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے)  چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ  نکلے، ورنہ گناہ ہوگا۔  ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفرِ حج  کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے، باوجود یہ کہ قرآنِ پاک نے انہیں امت کی مائیں قرار دیا ، لیکن قرآنِ پاک نے ہی انہیں پردے کا بھی حکم دیا، اور مؤمنین کو حکم دیا کہ امہات المؤمنین سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھیں۔

بہرحال اجنبی کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس سے عورت کا نکاح ہوسکتاہو، (مثلاً چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنوئی، نندوئی، دیور وغیرہ) ان سب سے بھی چہرے کا پردہ کرنا چاہیے، اگر مشترکہ خاندانی رہائش ہو تو گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر نگاہ نہ پڑے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ پردہ ایک شرعی حکم ہے ، شوہر کا اس سے روکنا یا منع کرنا جائز نہیں ہے،  شوہر کو  حکمت وبصیرت کے ساتھ خود ورنہ خاندان کے بڑوں کے ذریعے یہ بات سمجھانی چاہیے، اگر شوہر کسی طرح راضی نہ ہو تو  اللہ کی نافرمانی میں شوہر کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہوگا، لہذا آپ پردے کا اہتمام کریں، شرعی حکم کی تعمیل میں ان شاء اللہ ، اللہ کی طرف آپ کی مدد ونصرت بھی ہوگی، البتہ خلع یا طلاق کا فیصلہ فوری طور پر نہ کریں، اللہ تعالیٰ سے شوہر کی ہدایت اور اپنی مدد کی دعا کرتی رہیں، اور خاندان کے کسی ایسے بزرگ کے ذریعے شوہر کی فہمائش کی کوشش کریں جن کی بات وہ سنتے اور مانتے ہوں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں