بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کو مانعِ حمل ادویات کھلانا اور بیوی کی احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرجانا


سوال

 میں شادی شدہ ہوں اور زیادہ بچوں کی پیدائش کا خواہش مند ہوں، یہ بات شروع سے ہی میں نے بیگم کو بتا دی تھی، پنجابی فیملیز ہونے کی وجہ سے پہلے بچے کی پیدائش تو جلد از جلد ہونے کی خواہش ہوتی ہے دونوں خاندانوں کو، ہماری ایک بیٹی ہے ماشااللہ سے ڈیڑھ سال کی، میری بیگم پی ایچ ڈی کی سٹوڈنٹ بھی ہے، میرے گھر والوں نے شادی سے پہلے تو حامی بھر لی، مگر اب انہیں بہو کا یونیورسٹی جانا بھاری لگ رہا، بہرحال میں نے یہ پہلو ذہن میں رکھتے ہوئے تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی اگلے بچے کا سوچا ہوا تھا، اس طرح تھوڑا وقفہ بھی ہو جاتا، اور بیگم کو بچی سنبھالنے میں آسانی ہوجاتی، کرونا بیماری کی وجہ سے ڈگری مزید تاخیر کا شکار ہو گئی، مگر میری بیوی نے میری اجازت کے بغیر مجھے بتائے بغیر مانع حمل گولی لا کر دینے کے باوجود حمل ٹھہرا لیا۔ اب پریشانی ہے کہ ریسرچ کیسے مکمل ہو گی، روز تو یونیورسٹی جانا پڑتا ہے جو کہ ہے بھی دور، صحت کا خیال کیسے رکھا جائے گا اور گھر والوں کے طعنے کون سنے گا؟ میں سارا الزام بیگم کو نہیں دیتا، اللہ کے کاموں پر یقین ہے  مجھے جس بھی درجے کا ہو، مگر بیگم کو کم از کم مجھے بتانا چاہیے تھا کہ گولی کھانے کے باوجود حمل ہو گیا، یا گولی دیر سے کھانے کی وجہ سے حمل ہو گیا، یا اس نے گولی نہیں کھائی اپنی مرضی سے/ ماں کی مرضی سے/ رشتہ دار یا سہیلی کے کہنے پر، یا سائنس کی ریسرچ کی مدد سے بتا دیتی کہ گولی کھانے کے باوجود کبھی کبھار کسی عورت کا حمل ٹھہر جاتا ہے، میری راہ نمائی فرمائیں بیگم کی سرزنش کروں کہ اپنی مرضی نہ کرے شوہر کو اعتماد میں لے، بیگم کو شوہر کی نافرمانی کرنے پر اللہ کے عذاب سے ڈراؤں، بیگم کے والدین سے شکایت کروں؛ تا کہ بقیہ زندگی ایسا کام نہ کرے یا اس میں میری ہی کوئی غلطی ہے اپنی اصلاح کی دعا و کوشش کروں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لہذا  اس خطرہ کے پیش نظر  کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے، اسی طرح کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی جان دار مخلوق پیدا کی ہے سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے۔

البتہ ضرورت کے وقت ایسی مانعِ حمل تدابیر اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں عارضی مانعِ حمل تدابیر  بلاکراہت جائز ہے:

1۔ عورت اتنی کم زور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا  بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔

2۔۔  دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچےکے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق  اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو، اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

4۔۔۔۔  اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب  میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

5۔۔۔ ۔۔  مسلسل ولادت کی صورت میں بچوں کی تربیت میں سخت حرج کا لاحق ہونا۔

مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے، اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ میاں بیوی نے باہمی مفاہمت  سے بچی کی تربیت اور  اپنی تعلیم کے لیے وقتی طور پر مانع حمل تدابیر اختیار کی ہوں تو  اس کی شرعًا گنجائش ہے،  لیکن مانعِ حمل تدابیر کے باوجود  اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو حمل ٹھہر سکتا ہے،  بہر صورت  اگر اللہ تعالیٰ نے بچے کا آنا مقدر کر ہی دیا ہے تو  اب  بیوی  کو سرزنش نہ کریں،  اور آئندہ کے لیے ایسے معاملات ایک دوسرے کی باہمی مفاہمت اور رضامندی سے ہی حل کیے جائیں، میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں، حمل کے لیے کوشش یا وقتی طور پر حمل روکنے کی تدبیر میں تنہا فیصلے کرنے کے بجائے باہمی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور گھر کا معاملہ گھر ہی تک رکھیں، بیوی کے گھر والوں سے اس کے ذکر سے گریز کریں۔

بیوی نے گولی نہ لی ہو، یا تاخیر سے لی ہو یا ظاہر میں کوئی بھی وجہ ہو، حقیقی وجہ امرِ خداوندی ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کی پیدائش کا فیصلہ فرمادیں اسے کوئی نہیں روک سکتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے عزل (ہم بستری کے وقت انزال شرم گاہ سے باہر کرنے) کی اجازت چاہی، تو آپ ﷺ نے اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "قیامت تک جس جان دار نے آنا ہے وہ تو آکر ہی رہے گا۔" دوسری روایت میں ہےکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "ہر پانی (منی) سے بچہ نہیں ہوتا، اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمالیں تو اسے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ "

بہرحال بیوی کو نہ سرزنش کیجیے، نہ ہی اُسے کوسیے، بلکہ اُس سے درگزر کیجیے، البتہ آئندہ یہ معاملات باہمی مفاہمت اور اعتماد سے انجام دیجیے، آپ کے لیے عارضی تدبیر کی گنجائش تھی، آپ نے جواز کے دائرے میں ایک تدبیر کرلی، اب حمل ٹھہر گیا تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور رحمت سمجھ کر اسے قبول کرلیجیے، اور سوچ کو مثبت رکھیے، ان ایام میں آپ دونوں کے باہمی تناؤ کا اثر آنے والے بچے پر پڑسکتاہے۔

"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ… ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾".

  (صحیح مسلم، باب جواز الغیلة، وهی وطی المرضع وکراهة العزل، النسخة الهندیة ۱/۴۶۶)

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".

(فتاوی شامی(3/ 175) ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں