بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کے متعلق یہ کہنا یہ میرا بیٹا نہیں، یہ ناجائز اولاد ہے کا حکم


سوال

میری بہن  کا ایک چھوٹا بیٹا ہے،میری بہن پر اس کا شوہر گھریلو ناچاقی کی وجہ سے  بہت ظلم کرتا رہا ہے،اور متعدد بار مارپیٹ بھی کی ہے، میرے  بہنوئی کے باہر  لڑکیوں سے ناجائز تعلقات بھی ہیں، جس سے میری بہن نے  کافی بار منع کیا تھا، لیکن اس کے باوجود میرے بہنوئی اس سے باز نہیں آئے، میرا بہنوئی  میری بہن کو دو طلاقیں بھی دے چکا ہے، اس وجہ سے والد صاحب میری بہن کو  گھر لے کر آگئے تھے، ایک ماہ تک میری بہن  ہمارے پاس رہی، اس کے بعد جرگہ میں فیصلہ ہوا، اور میرے بہنوئی نے قرآن پاک پر  ہاتھ رکھ کہا کہ آئندہ میں کوئی غلط حرکتیں نہیں کروں گا، جس کے بعد میری بہن اپنے شوہر کے گھر چلی گئی،وہاں جانے کے بعد میرے بہنوئی نے میری بہن پر اور زیادہ ظلم کرنا شروع کیا اور اپنے بیٹے   کے بارے میں کہا کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے،یہ ناجائز اولاد ہے،ایک ماہ مسلسل کہتا رہاکہ یہ میرا نہیں،ناجائز اولاد ہے،اس کے بارے میں شرعی رہنمائی چاہیے،اس کا کیا حکم ہے؟کیوں کہ میرے والد  صاحب نےعدالت جانے کا ارادہ کیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ منکوحہ سے اولاد کا نسب قوی ہوتا ہے، اس کے لیے نہ کسی دعویٰ کی ضرورت  ہوتی ہے،   اور نہ ہی شوہر کے محض  انکار سے اس کی نفی کی جاسکتی ہے، اس کے لیے  لعان کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے، بصورت  دیگر منکوحہ خاتون سے پیدا ہونے والا بچہ اس کے شوہر کا ہی شمار ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے بہنوئی کی جانب سے بیٹے کو ناجائز قرار دینا اس وقت تک معتبر نہیں  ہوگا، جب تک کہ وہ لعان کرکے اس کے نسب کا انکار نہ کردے، رہی بات بیوی کو مارنے پیٹنے اور ظلم کرنے کی، تو یہ انتہائی گھٹیا طرز عمل ہے، جس پر اسے اپنی بیوی سے معافی مانگنی چاہیے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تضربوا إماء الله" فجاء عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ذئرن النساء على أزواجهن، فرخص في ضربهن، فأطاف بآل رسول الله صلى الله عليه وسلم نساء كثير، يشكون أزواجهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لقد طاف بآل محمد نساء كثير، يشكون أزواجهن، ليس أولئك ‌بخياركم."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب عشرة النساء، ‌‌الفصل الثاني، 973/2، ط: المكتب الإسلامي)

”ترجمہ: جناب رسول اللہ کی اللہ نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مت مارو یعنی اپنی بیویوں کو نہ مارو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہو گئی ہیں  آپ نے ان کو مارنے کی ممانعت کر دی ہے۔ پھر آپ ﷺ ہم  مردوں کو مارنے کی رخصت دی تو کئی عورتیں ازواج مطہرات کے ہاں جمع ہوئیں اور انہوں نے اپنے خاوندوں کی مار پٹائی کی شکایت کی تو آپ ﷺ  نے ارشاد فرمایا آل محمد کے ہاں بہت سی عورتیں جمع ہو کر اپنے خاوندوں کی شکایت کر رہی ہیں ۔ جو لوگ اپنی بیویوں کی پٹائی کرتے ہیں وہ ) تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔“

(کتاب النکاح،  باب عشرۃ النساء، الفصل الثانی، 421/3، ط:  مکتبۃ العلم)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 "قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد:والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر،  536/1، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الفراش ‌على أربع ‌مراتب...وقوي: وهو فراش المنكوحة ومعتدة الرجعي فإنه فيه لا ينتفي إلا باللعان.وأقوى: كفراش معتدة البائن، فإن الولد لا ينتفي فيه أصلا، لأن نفيه متوقف ‌على اللعان وشرط اللعان الزوجية."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ‌‌فصل في ثبوت النسب، مطلب: الفراش على أربع مراتب، 550/3، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں