بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا اپنی بیمار بیوی کو سسرال کی خدمت پر مجبور کرنا


سوال

 میں حاملہ ہوں اور مجھے ڈاکٹر نے بیڈ ریسٹ کی ہدایت کی ہے لیکن میں پھر بھی سسرال میں ہلکی پھلکی ذمہ داری مثلا ہانڈی بنانا سنبھالی ہوئی ہے، چاہے کتنی میرےذمہ کچھ ذمہ داری ڈالی گئی ہیں میں ان کو اپنے وقت پر مکمل کر دیتی ہوں، پھر بھی اگر میری ساس  ضد پہ آکر اپنا آپریشن کروانا چاہتی ہیں تو کیا میرے شوہر کو میری اس حالت میں مجھے مجبور کرنا کہ میری امی کے آپریشن میں مہمان آئیں گے ان کی خدمت اور امی کی خدمت بھی تمھارافرض ہے، بہو کافرض ہے، جبکہ میں خود حاملہ ہوں اور بچے کو نقصان کا خطرہ ہے اس دوران میرے پہ کیا یہ ضروری ہے کہ میں ساس یادیور کے کہے گئے کاموں کو کروں؟ اور ان کی خدمت کروں؟  میرے پر اپنے بچے اور شوہر کی ذمہ داری ہے جو میں جانتی بھی ہوں اور ہر صورت صحت کی خرابی کے باوجود انجام دیتی ہوں۔

کیا اسلام کے مطابق شوہر معاشرے کے ڈر سے اور والدین کے ڈر سے اپنی بیوی کو مجبور کرسکتا ہے کہ ان کی خدمت کرو  جب کہ میں خود حاملہ ہوں؟ کیا ساس، دیور، نند اور سسر کی خدمت کرنا مجھ پہ فرض ہے؟  جبکہ میری نند شادی شدہ ہے، کیا شادی شدہ لڑکی شادی کے بعد اپنے سگے ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتی؟ جبکہ میرے شوہر کے مطابق بہو کافرض ہے کہ وہ ساس کی خدمت کرے۔

اسلام کیا کہتا ہے کہ ترتیب کیا ہےخدمت کی؟ کیا ساس کے آپریشن کے دوران میں اپنے والدین کے گھر رہنے جاسکتی ہوں؟ کیونکہ  حمل کا آخری مہینہ ہے اور ساس ضد سے جان بوجھ کہ آپریشن کروانا چاہتی ہے کہ بہو پہ اس حالت میں ذمہ داری ڈال دو ، میں اپنے والدین کے گھر اپنی حفاظت اور اپنے بچے کی حفاظت کے لیے اور نقصان سے بچنے کے لیے جاسکتی ہوں؟ برائے مہربانی سوال کاٹھوس جواب دے دیں۔ اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ پیدائش کے بعد اپنے بچے کو بیمار یا روتا چھوڑ کر میں ساس سسر دیور اور نند کی خدمت کرنے کی پابند ہوں، اگر میں اپنے بچے کی صحیح پرورش کروں یہ میرا فرض ہے نا کہ سسرالی رشتے داروں کی خدمت، برائے مہربانی جواب دیں۔

جواب

خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے سسرال اور بہو کو باہمی تعلق اور خدمت وغیرہ کے حوالے سے افراط و تفریط کی بجائے اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے، بہو کا ساس سسر کے ساتھ رہنے کی صورت میں ہر حال میں ساس سسر کی خدمت سے انکار کرنا مناسب نہیں اور ساس سسر کا ہر حال میں اس سے خدمت چاہنا بھی مناسب نہیں، بہو کوصحت یابی کے زمانے میں ان کی خدمت سعادت سمجھ کر  کرنی چاہیے اور ساس سسر کو بھی بہو کی بیماری و کمزوری اور چھوٹے بچوں کی پرورش میں مشغولیت کے زمانے میں اس پر خدمت کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ 

لہذا اگر حمل کی وجہ سے ڈاکٹر نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا ہے تو اپنی اور بچے کی صحت کی خاطر آپ کو اس کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملے میں آپ کے ساتھ تعاون کرے، اگر ساس آپ کے بچے کی ولادت تک اپنا آپریشن مؤخر نہیں کرسکتی تو شوہر کااس حالت میں آپ کو خدمت پر مجبور  کرنا ظلم و زیادتی ہے اور شرعی حدود سے تجاوز ہے،ایسی حالت میں آپ کو خدمت سے انکار کرنے کا حق حاصل ہے، نیز نند اور دیور کی خدمت پر مجبور کرنا بھی درست نہیں  بلکہ دیور سے شرعی طور پر پردہ کرنا ضروری ہے۔

جامعہ کے سابق رئیس دار الافتاء حضرت مولانا مفتی محمدعبدالسلام چاٹ گامی رحمہ اللہ    ایک فتوے میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اگر بیوی فارغ ہو تو سسر اور ساس کی جائز خدمت کرنا اس پر لازم ہے، انسانی ہم دردی کے علاوہ اس وجہ سے بھی کہ وہ شوہر کے والدین ہیں، شوہر کے والدین کی خدمت کرنا درحقیقت شوہر کی خدمت کرنا ہے، البتہ جب وہ فارغ نہ ہو یا کوئی ایسی خدمت جو انجام دینا اس کے لیے درست نہیں، وہ بہو کے ذمہ نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘

(کتبہ: محمد عبدالسلام، 4/2/1412)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں