بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق ادا نہ کرنے کا شرعی حکم


سوال

جو آدمی اپنی زوجہ کے ازدواجی حق کی ادائیگی صحیح طور سے نہ کرتا ہو، اس کے لیے کیا حکم ہے؟ بظاہر وہ صحت مند ہے اور طبی طور پر بھی ڈاکٹر اسے فٹ قرار دیتے ہیں، لیکن وہ ازدواجی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتتا ہے، یا اس پر قدرت نہیں رکھتا، یا اس کے ساتھ کوئی روحانی مسائل ہوں، تو اس صورت میں وہ کیا کرے اور عورت کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں  کے  ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں بیوی  کے  ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اس کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا اور  اسے اس کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا سب داخل ہے ،اگر میاں بیوی دونوں صحت مند ہوں اور تھکاوٹ وغیرہ نہ ہو تو بلا وجہ صحبت نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں    بہترین ہوں"۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا "(النساء: 19)

ترجمہ:" اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء،281/2، ط: قدیمي)

 یہی وجہ ہے کہ فقہاءِ کرام نے  اس بات کی صراحت کی ہے کہ جیسے شوہر کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبے کو پورا کرنا بیوی پر لازم ہے، بشرط یہ کہ کوئی شرعی  مانع نہ ہو، بالکل اسی طرح بیوی کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ  یا خواہش پر اس مطالبے کو پورا کرنا شوہر پر واجب ہے، پس اگر شوہرباوجود قدرت و طاقت کےعورت کے اِس مطالبے کو پورا نہ کرے اور کسی بھی طور پر یہ حق ادا نہ کرےتو حق تلفی کے گناہ کا مرتکب ہوگا،اور اس پر  لازم ہوگا کہ وہ حقِ زوجیت کی ادائیگی کو یقینی بنائے ، بصورتِ دیگر عورت کوطلاق دےدے،قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اس پر تنبیہ فرمائی ہےکہ کوئی مرد اپنی بیوی کےحقوق بھی ادا نہ کرے اور اس کو طلاق دے کر علیحدہ بھی نہ کرے،بلکہ اپنے عقد نکاح میں ظلم و زیادتی کی غرض سے باقی رکھے،چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ہے:"وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاۚ "(ترجمہ :اور ان کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے مت رکھو،اس ارادے سے کہ ان پر ظلم کیاکروگے)۔

ایسی صورت میں بیوی کو چاہیے کہ وہ خاندان کےبااختیار و سمجھدار افراد کے ذریعے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے ،اورخاندانی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر اس کو حقوق کی ادائیگی  پرمجبور کرے، اور اگرشوہر کسی بھی طرح حقوق کی ادائیگی کے لیے راضی نہ ہو اور بیوی کا عفت اور پاکدامنی کے ساتھ رہنا مشکل ہو تو بیوی شوہر سے طلاق یا مہر کی معافی کی شرط پرخلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، لیکن خلع کے واقع ہونے کے لیےشوہر کی رضامندی ضروری ہے، لہذا شوہر جب تک زبانی یا تحریری طور پر طلاق یا خلع نہ  دے،بیوی پر  خلع واقع نہ ہوگی،چاہےبیوی عدالت میں خلع کا کیس دائر کرکے یک طرفہ خلع ہی کیوں نہ لے لے، ایسی خلع کا شرعاً اعتبار نہیں ہے، عدالتی خلع کے حوالہ سے مذکورہ بالا تفصیل اس صورت میں ہے جب شوہرنے نکاح کے بعد بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا ہو،چاہے ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہواہو، کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان ایک دفعہ بھی ازدواجی تعلق قائم ہوجائے تو بیوی کو عدالت سے علیحدگی حاصل کرنے کا حق نہیں ہوتا۔

اور اگر شوہر نےنکاح کے بعدایک مرتبہ بھی بیوی سےازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہواور بیوی کے مطالبہ پربھی یہ حق ادا نہ کرتا ہوتو وہ اس بنیاد پر اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے،اور شوہر پر لازم ہے کہ یا تو وہ بیوی کے حقوق کی ادئیگی کرے یا پھر اسے طلاق یا خلع دے کر علیحدگی اختیار کرلے، اور اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہ ہوتو عورت عدالت کے ذریعہ فسخِ نکاح کرواسکتی ہے، لیکن فسخِ نکاح میں بھی اس کی شرائط کا  مکمل لحاظ رکھ کر اگر عدالتی کاروائی مکمل کی جائے گی تو  عدالتی فیصلہ معتبر ہوگا، یعنی عورت کسی مسلمان قاضی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرے،اور شوہر کا حق زوجیت ادا نہ کرنے پر فسخِ نکاح کا مقدمہ دائر کرے،اور علیحدگی کا مطالبہ کرے،قاضی پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ شوہر نے ایک دفعہ بھی بیوی سے ہمبستری نہیں کی ہے، بعدازاں قاضی اسے مہلت دے،اور اگر اپنے مذکورہ فعل سےباز آجائے اور ایک دفعہ بھی حقِ زوجیت اد اکردے تو عورت کا دعوی کالعدم ہوجائے گا،اور اس کے بعد وہ علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی،البتہ اگر مہلت کے باوجود شوہر حقِ زوجیت ادا نہ کرے،تو قاضی شوہر کو پابند کرے گاکہ عورت کو طلاق دے دو، اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرے تو قاضی خود ان کے درمیان تفریق کرے گا ،جس کے بعد  عدت (تین ماہواریاں) گزار کربیوی کاشرعًا دوسری جگہ نکاح کرناجائز اوردرست ہوگا۔

(ملخص از حيلۂ ناجزہ،ص:44 تا48، ط:دارالاشاعت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وللزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج، ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة والزيادة على ذلك تجب فيما بينه، وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، فلا يجب عليه في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم."

( كتاب النكاح، فصل بيان حكم النكاح، 331/2، ط: دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"لو وطئها مرة لا حق لها في المطالبة لسقوط حقها بالمرة قضاء وما زاد عليها ‌فهو ‌مستحق ‌ديانة لا قضاء كما في جامع قاضي خان."

(كتاب النكاح، باب العنين، 135/4، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لحصول حقها بالوطء مرة) وما زاد عليها ‌فهو ‌مستحق ‌ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ط."

(كتاب النكاح، باب العنين،495/3، ط:سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً".ومن العشرة الطيبة...ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

(الباب الأول: الزواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں