میری شادی کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے۔ ایسے میں میرے شوہر شادی جب سے ہوئی تب سے ہی حقِ زوجیت میں کاہلی ، سستی کرتے ہیں ۔ تقریباً دس یا پندرہ دن میں ایک ہی مرتبہ وہ میرے قریب آتے ہیں، اگر میں پہل کرنے کی کوشش کروں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ان کے مزاج میں غصہ اور ناراضگی کا عنصر زیادہ ہے۔ آئے دن چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتے ہیں۔ ناراضگی جتاتے ہیں اور جلد نہیں مانتے۔ جب تک ان سے خوب معافی نہیں مانگ لی جاتی۔ ایسے میں ، میں ایک سال کا عرصہ صبر سے گزاررہی ہوں ، اب مجھ سے رہا نہیں گیا تو اپنے والدین کے گھر پر آئی ہوں ابھی مجھ کو میکہ آنے کو پندرہ بیس دن ہوگئے ہیں، مگر میرے شوہر کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑرہا ہے۔ انھوں نے اس عرصہ میں مجھ سےکوئی رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے بھی کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کی، مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا میرا میکہ آجانے کا عمل صحیح ہے یا غلط ہے ؟ شریعت ازدواجی تعلقات کے سلسلے میں کیا رہنمائی فراہم کرتی ہے، بغیر ازدواجی تعلقات کے سسرال میں رہنا سسرال والوں کا پورا کام کرنا صحیح ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں ازدواجی تعلقات کے لیے کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ یہ بات میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور طبیعت کے نشاط پر چھوڑ دی گئی ہے؛ لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت اور طاقت کے مطابق حتی الامکان بیوی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے، اِس میں کوتاہی نہ کرے، شوہر بیوی کی رعایت رکھے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی رعایت رکھے ، اور توازن پیدا کرے۔
صورتِ مسئولہ میںشوہر کو چاہیے کہ بیوی کے احساسات کا لحاظ رکھے اور بیوی کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی تعداد میں اضافہ کرے، نیز بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کا اہتمام کرے ؛تا کہ شوہر کی طبیعت اُس کی طرف مائل ہو۔ تاہم اگر شوہر دس ،پندرہ دن میں حقوقِ زوجیت ادا کرتا ہے اور اس سے زیادہ مرتبہ حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں اس کے لیے حرج ہو تو وہ بیوی کی حق تلفی کرنے والا نہیں ہے،البتہ احادیث مبارکہ میں معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے سے متعلق تعلیم یہ ہے کہ بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ سلوک میں اچھا ہو،اس لیے شوہر کو چاہیے کہ گھریلو معاملات میں درگز ر سے کام لے،معمولی باتوں پر جلد ناراض ہوجانا مناسب نہیں ہے،لیکن ان سب باتوں کے باوجود بیوی کا شوہر سے ناراض ہوکر میکے میں بیٹھ جانا بالکل جائز نہیں ہے،بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر واپس چلی جائے اور اپنے شوہر کی مکمل اطاعت کرے،اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے،اس سےان شاء اللہ ازدواجی زندگی بہتر ہوگی ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:
"و يسقط حقّها بمرة و يجب ديانةً أحيانًا و لايبلغ الإيلاء إلا برضاها، و يؤمر المتعبد بصحبتها أحيانًا، و قدّره الطحاوي بيوم و ليلة من كل أربع لحرة و سبع لأمة. و لو تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها، و الرأي في تعيين المقدار للقاضي بما يظن طاقتها، نهر بحثًا."
(کتاب النکاح،ج3،ص202،ط؛سعید)
وفيه أيضًا:
"في الفتح: فأما إذا لم يكن له إلا امرأة واحدة فتشاغل عنها بالعبادة أو السراري اختار الطحاوي رواية الحسن عن أبي حنيفة أن لها يومًا و ليلة من كل أربع ليال و باقيها له؛ لأنّ له أن يسقط حقّها في الثلاث بتزوج ثلاث حرائر، و إن كانت الزوجة أمةً فلها يوم و ليلة في كل سبع. و ظاهر المذهب أن لايتعين مقدار؛ لأنّ القسم معنى نسبي و إيجابه طلب إيجاده و هو يتوقف على وجود المنتسبين فلايطلب قبل تصوره، بل يؤمر أن يبيت معها و يصحبها أحيانًا من غير توقيت. اهـ.
و نقل في النهر عن البدائع أن ما رواه الحسن هو قول الإمام أولًا ثم رجع عنه وأنه ليس بشيء (قوله: وسبع لأمة) لأن له أن يتزوج عليها ثلاث حرائر فيقسم لهن ستة أيام و لها يوم (قوله: نهر بحثًا) حيث قال: و مقتضى النظر أنه لايجوز له أن يزيد على قدر طاقتها، أما تعيين المقدار فلم أقف عليه لأئمتنا، نعم في كتب المالكية خلاف فقيل: يقضي عليهما بأربع في الليل و أربع في النهار، و قيل: بأربع فيهما. و عن أنس بن مالك عشر مرات فيهما. وفي دقائق ابن فرحون: باثني عشر مرةً.و عندي أن الرأي فيه للقاضي فيقضي بما يغلب على ظنه أنها تطيقه اهـ."
(کتاب النکاح،ج3،ص203،ط؛سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن