بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا اپنی بیوی کو اس کی رضامندی کے بغیراس کے والد کے گھر بھیجنا


سوال

کیا خاوند نوکری نہ ہونے کی وجہ سے بیوی کو اس کے ماں باپ کے گھر بیوی کی رضامندی کے بغیر چھوڑ سکتا ہے؟ اوربیوی سے کوئی رابطہ بھی نہیں رکھتا ہے کیا  اپنی بیوی کواس طرح چھوڑنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کے بعد بیوی کی رہائش اور نان نفقہ کا انتظام کرنا  شوہر پرلازم ہے،اور جہاں شوہر اپنی رہائش رکھے  اپنی بیوی کو بھی  ساتھ رکھے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں خاوند کا اپنی اہلیہ کو اُس کے ماں باپ کے گھر   اس کی رضامندی کے بغیر چھوڑدینا شرعاًجائزنہیں ،نان نفقہ اور رہائش بیوی کا حق ہے اگر خاوند اپنی اہلیہ کی حق تلفی کررہا ہو تو اہلیہ بذریعہ عدالت اپنے حق کا مطالبہ کرنے کاحق رکھتی ہے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، أخبرنا أبو قزعة الباهلي، عن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه، قال: قلت: يا رسول الله، ما حق زوجة أحدنا عليه؟ قال: "أن تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت - أو اكتسبت - ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت. قال أبو داود: "ولا تقبح" أن تقول: قبحك الله."

(أول كتاب النكاح،باب في حق المرأة على زوجها،ج:3،ص:476،ط:دار الرسالة العالمية)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثاني في السكنى ،ج:1،ص:556، ط: ماجدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں