میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ "اگر تم اپنی بہن کے شوہر سے رشتہ رکھوگی تو میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھوں گا"، یہ ساری باتیں عام پر سکون ماحول میں ہوئی تھیں، پھر کچھ ہی دیر بعد میں نے اپنی بات بیوی کے سامنے واپس لے لی، بیوی کو اس بات کی اجازت بھی دے دی کہ تم اپنی بہن کے شوہر سے رشتہ رکھ سکتی ہو۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی سے جو یہ کہا ہے کہ "اگر تم اپنی بہن کے شوہر سے رشتہ رکھوگی تو میں تم سے رشتہ نہیں رکھوں گا"،اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح برقرار ہے، دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
تاہم یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ سائل کی بیوی کے لیے اس کی بہن کا شوہر یعنی بہنوئی نامحرم ہے، عورت پر نامحرم مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہے،لہذابلاضرورت بات چیت کرنا، ملاقات کرنا ، ہنسی مذاق کرنا، تنہائی میں ساتھ رہنا اور بے پردہ سامنے آنا جائز نہیں ہے،البتہ ضرورت کے وقت پردہ کے اہتمام کے ساتھ ضرورت کی حد تک بات چیت کی گنجائش ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"شرعا فهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق."
(كتاب الطلاق ، الباب الاول، ج:1، ص:348، ط:دارالفكر)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام۔"
(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"المحرم من النساءالتي يجوز له النظر إليها والمسافرة معها كل من حرم نكاحها على التأبيد بسبب مباح لحرمتها فخرجت بالتأبيد أخت الزوجة وعمتها وخالتها."
(کتاب المناسک 5/1744ط: دار الفكر)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال :سالی سے پردہ کرنا چاہیے یانہیں اور کچھ حد مقرر ہے یانہیں ؟
جواب :جی ہاں پر دہ کرناچاہیے ، وہ اجنبیہ ہے ، اس کیبہن کو طلاق دینے اور عدت گزرنے پر ، یااس کے انتقال پر اس سے نکاح درست ہے ، اس سے خلوت بھی منع ہے ، ہنسی مذاقاور بے پردہ سامنے آنا بھی منع ہے ۔"
(باب الحجاب 19/ 207 ط:ادارہ الفاروق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101764
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن