بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہرکا اپنی بیمار بیوی کی خدمت کرنے کاحکم


سوال

کیا بیوی بیمار ہو تو خاوند اس کی خدمت کر سکتا ہے؟ مثلاً پاؤں دبانا سر دبانا وغیرہ، قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں!

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر بیوی کی بیماری کی وجہ سے یا کسی اور عذر کی بنا پر، یا باہمی رضامندی اور حسنِ معاشرت کے طور پر شوہر اپنی خوشی سے بیوی کی  خدمت کرے اور اس کے پاؤں اور سر وغیرہ دبائے تو اس میں نہ عقلاً کوئی قباحت ہے اور نہ ہی شرعًا کوئی ممانعت  ہے، بلکہ یہ عمل  حسنِ معاشرت میں داخل ہے، اور اللہ تعالی نے بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے سورہ نساء میں ہے:

" اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو"۔ [النساء: 19]

 اسی طرح حضوراکرمﷺ نے سب سے بہترین شخص اسی کو قرار دیا جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ حسنِ معاشرت کرتاہو، جیسےکہ حدیث شریف میں ہےرسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں وغیرہ) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

اسی طرح حسنِ معاشرت کی خاطر حضوراکرمﷺ نےبیوی کے منہ میں لقمہ دینے کو قابل اجر عمل قرار دے دیا، آپﷺ فارغ اوقات میں گھر کے کام میں اپنی ازواج مطہرات کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے، کہ جبحضرت عائشہ  رضی اللہ عنہسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھاگیا، تو انہوں نے بتایا: ”اپنے سر سے جوئیں نکالتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اپنی خدمت خود کرلیتے، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھا وہ چھوڑ کر چلے جاتے۔ (ترمذی: باب مما فی صفة اوانی الحوض: حدیث: ۲۴۸۹)

الغرض حسن معاشرت کے طور پر شوہر کااپنی بیوی کی خدمت کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔

تاہم  اگر  بیوی تذلیل وتحقیر کے طور پر   شوہر سے  خدمت لے یا ایسا موقع ہو کہ شوہر کی  بیوی کی خدمت کرنے میں اس کی تحقیر اور تذلیل ہو تو یہ از روئے شرع جائز نہیں ہے۔

تفسير القرطبي  میں ہے:

قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ) أَيْ عَلَى مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ مِنْ حُسْنِ الْمُعَاشَرَةِ. وَالْخِطَابُ لِلْجَمِيعِ، إِذْ لِكُلِّ أَحَدٍ عِشْرَةٌ، زَوْجًا كَانَ أَوْ وَلِيًّا، وَلَكِنَّ الْمُرَادَ بِهَذَا الْأَمْرِ فِي الْأَغْلَبِ الْأَزْوَاجُ، وَهُوَ مِثْلُ قَوْلِهِ تَعَالَى: (فَإِمْساكٌ «1» بِمَعْرُوفٍ) وَذَلِكَ تَوْفِيَةُ حَقِّهَا مِنَ الْمَهْرِ وَالنَّفَقَةِ، وَأَلَّا يَعْبَسَ فِي وَجْهِهَا بِغَيْرِ ذَنْبٍ، وَأَنْ يَكُونَ مُنْطَلِقًا فِي الْقَوْلِ لَا فَظًّا وَلَا غَلِيظًا وَلَا مُظْهِرًا مَيْلًا إِلَى غَيْرِهَا. وَالْعِشْرَةُ: الْمُخَالَطَةُ وَالْمُمَازَجَةُ. فَأَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِحُسْنِ صُحْبَةِ النِّسَاءِ إِذَا عَقَدُوا عَلَيْهِنَّ لِتَكُونَ أَدَمَةُ «2» مَا بَيْنَهُمْ وَصُحْبَتُهُمْ عَلَى الْكَمَالِ، فَإِنَّهُ أَهْدَأُ لِلنَّفْسِ وَأَهْنَأُ لِلْعَيْشِ. وَهَذَا وَاجِبٌ عَلَى الزَّوْجِ وَلَا يَلْزَمُهُ فِي الْقَضَاءِ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ أن يتصنع لها كما تتصنع له. وقال يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَنْظَلِيُّ: أَتَيْتُ مُحَمَّدَ ابن الْحَنَفِيَّةِ فَخَرَجَ إِلَيَّ فِي مِلْحَفَةٍ حَمْرَاءَ وَلِحْيَتُهُ تَقْطُرُ مِنَ الْغَالِيَةِ «3»، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْمِلْحَفَةَ أَلْقَتْهَا عَلَيَّ امْرَأَتِي وَدَهَنَتْنِي بالطيب، وإنهن يشتهين مناما نَشْتَهِيهِ مِنْهُنَّ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِامْرَأَتِي كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَتَزَيَّنَ [الْمَرْأَةُ «4»] لِي. وَهَذَا دَاخِلٌ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ،(سورةالنساء، رقم الآية:19، ج:5، ص:97، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’أما الحر فخدمته لها حرام؛ لما فيه من الإهانة والإذلال‘‘.

وفي رد المحتار:’’فليس كل خدمة لا تجوز، وإنما يمتنع لو كانت الخدمة للتذلیل ... قال في البحر: وحاصله أنه يحرم عليها الاستخدام، ويحرم عليه الخدمة.

(باب المهر، ج:3، ص:108، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 

 


فتوی نمبر : 144202200336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں