بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے حقوق پورے نہ کرنا


سوال

خاوند سے ہر وقت جو بیوی سیدھے منہ بات نہ کرے اور دو دو ماہ ہمبستری کے لیے رضی نہ ہو، خاوند یہ شکایت بیوی کے والدین یا بھائیوں کو کیسے کرے؟ 

 

جواب

شریعت نے جس طرح شوہر پر بیوی کا نان نفقہ اور دیگر حقوق لازم کیے ہیں، اسی طرح  بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ہے، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے (مشکاۃ) ، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیےبلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں (مشکاۃ)، دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو (مشکاۃ)۔ لہذا بغیر کسی عذر شرعی کے عورت کو شوہر کی طبعی ضروریات پورا کرنے سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

شوہر اول نرمی اور پیار سے اپنی بیوی کو خود سمجھانے کی کوشش کرے،اگر ان کوششوں سے کوئی فائدہ ہوتا محسوس نہ ہو رہا ہو تو وہ دونوں خاندانوں کے بڑوں کو اعتماد میں لے کر ان کے ذریعے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کرے۔

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها»". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 280 ط: قديمي)

"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور». رواه الترمذي". (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں