بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کا اسے تکلیفیں دینے کا حکم


سوال

دوسری شادی میں نے چار سال پہلے کی، پہلی بیوی نے میرے بچوں اور رشتے داروں اور دنیا والوں کے سامنے مجھے بدنام کرنا شروع کیا، بستر ترک کردیا، تعلق توڑ لیا، بات چیت بند کر دی، دعا سلام، عید، جمعہ، رمضان سب کا بند کر دیا، کھانا، کپڑے دھونا، سارا کام دوسری بیوی پر ڈال دیا، بیٹے کے رشتے کے لیے خود رشتہ لینے چلی گئی، بچوں کو دوسری ماں سے ملنے ممانعت کردی، ماہانہ خرچ برابر دیتا ہوں، مگر لوگوں کو کہتی ہے کہ شوہر کا پیسہ نہیں، پھوپھی کا پیسہ ہے۔

اگرچہ ہے، مگر اس کو پیسے کی تکلیف آج تک میں نےنہیں ہونے دی، مگر وہ مکمل نافرمانی، نا شکری کر رہی ہے، دل کی برائی کو دھونے کی کوشش کی، معافی مانگ کر حالات بہتر کرنا چاہے، مگر اس نے معافی دینے سے انکار کر دیا، بچوں کو کمانے کی ترغیب نہیں دیتی،  مگر بچوں کو کہتی ہےکہ باپ کام نہیں کرتا، باپ کا فریضہ ہے کہ گھر کا سسٹم چلائے،بیٹوں کو باپ پر خرچ کرنے سے منع کرتی ہے، ماں، بیٹا اندر اندر پراپرٹی خریدتے ہیں اور مُجھے نہیں بتاتے، گھر سے باہر آنا جانا، بغیر شوہر کے علم میں لائے کرتی ہے،اس کی وجہ دوسری شادی کی خنس بتاتی ہے، ایسی عورت کی اصلاح کےلیے فتویٰ درکار ہے، کہ اسلام کیا حکم دیتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ دوسری شادی کرنامرد کاحق ہے، بشرط یہ کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے درمیان برابری اور عدل وانصاف کے ظاہری تمام تقاضوں کو پورا کرنے پر قادر ہو، اور اس کے لیے عورت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی عورت کو شوہر کی دوسری شادی پر اعتراض کرنے کاحق حاصل ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کا شوہر کو دوسری شادی کرنے کی وجہ سے تکلیف دینا اور اس کی دل آزاری کرنا نیز شوہر کے جائز عمل کی وجہ سے خود کبیرہ گناہوں کو سر لینا دانش مندی نہیں ہے، بلکہ صریح ناجائز  ہے، ایسی عورت کی اصلاح کے لیے مرد کو چاہیے کہ بیوی کو حتی الامکان خود یا خاندان کے بڑوں کے ذریعےسمجھانے کی کوشش کرے،لیکن اگر وہ باز نہ آئے اور نباہ کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہوسکے، تو انتہامیں  اسےایک طلاقِ رجعی دے کر زوجیت سے علیحدہ کردے۔

سورة البقرة   میں ہے:

"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ."

ترجمہ:’’اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔‘‘

(الآية: ٢٢٨)

بدائع الصنائعمیں ہے:

"ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: وعاشروهن بالمعروف، قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى: ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف، أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم."

(ص:٣٣٤، ج:٢، کتاب النکاح، فصل المعاشرة بالمعروف، ط: دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(و) صح (‌نكاح ‌أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر (وله التسري بما شاء من الإماء) فلو له أربع وألف سرية وأراد شراء أخرى فلامه رجل خيف عليه الكفر ولو أراد فقالت امرأته أقتل نفسي لا يمتنع لأنه مشروع، لكن لو ترك لئلا يغمها يؤجر لحديث من رق لأمتي رق الله له بزازية.

(قوله: لحديث من رق لأمتي ) أي رحمها، رق الله له: أي أثابه وأحسن إليه ط."

(ص:٤٨، ج:٣، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: ایج ایم سعید)

وفيه أيضا:

"بل يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة غاية، ومفاده أن لا إثم بمعاشرة من لا تصلي ويجب لو فات الإمساك بالمعروف ويحرم لو بدعيا ومن محاسنه التخلص به من المكاره.

(قوله لو مؤذية) أطلقه فشمل المؤذية له أو لغيره بقولها أو بفعلها . . . (قوله ومن محاسنه التخلص به من المكاره) أي الدينية والدنيوية بحر: أي كأن عجز عن إقامة حقوق الزوجة، أو كان لا يشتهيها."

(ص:٢٢٩، ج:٣، کتاب الطلاق، ط: ایج ایم سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وأما سببه فالحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى وشرعه رحمة منه سبحانه . . . وفي غاية البيان: يستحب طلاقها إذا كانت سليطة مؤذية أو تاركة للصلاة لا تقيم حدود الله تعالى اهـ. وهو يفيد جواز معاشرة من لا تصلي ولا إثم عليه بل عليها."

(ص:٢٥٣-٢٥٥، ج:٣، كتاب الطلاق، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں