بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر جب نماز نہیں پڑھتے بیوی کے لیے حکمِ شرعی


سوال

میرے شوہر نماز نہیں پڑھتے، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں، اللہ سے بہت دعائیں بھی کر رہی ہوں، پوچھنا یہ تھا کہ میں فجر کی نماز کے لیے اٹھتی ہوں، میں اپنے شوہر کو اٹھاتی ہوں، لیکن وہ نہیں اٹھتے ،پھر میں نے اب ان کو اٹھانا چھوڑ دیا ہے، تو کیا اس کا گناہ مجھے ملے گا؟

برائے مہربانی کوئی وظیفہ بھی بتا دیں مجھے اس بات سے بہت خوف ہے کہ کہیں سارا گناہ میرے سر تو نہیں ؟میں اٹھانے کی کوشش بھی کرتی ہوں، لیکن نہیں اٹھتے تھے اور نماز کا بہت زیادہ بولنے پر تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں کوئی جواب نہیں دیتے۔

جواب

مذکورہ صورت میں سائلہ اپنے شوہر کو محبت اور حکمت سے نماز کی اہمیت اور نماز کے فضائل سنائے،حکمِ الٰہی کی عظمت اس کے سامنے بیان کی جاۓ،سختی سے بات کرنے سے حتیٰ الامکان پرہیز کیا جائے، پھرانتہائی خلوص  سے شوہر کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں،البتہ اگر سائلہ کی پوری کوشش کے باوجودشوہر  نماز پڑھنے پر کسی صورت تیار نہ ہوتو اگرچہ شوہر کا یہ عمل گناہ کبیرہ ہے،لیکن شوہر کےنماز نہ پڑھنے سےبیوی گناہ گار نہیں ہوگی، بلکہ شوہر اپنے عمل کی خود ذمہ دار ہوگا۔

نیز گھر کاماحول بدلنے کی کوشش کریں ، اورگھر میں فضائل اعمال کی مختصر  تعلیم شروع کریں،بالخصوص اس میں فضائلِ نماز والے حصے سے نماز کی اہمیت و فضیلت سے متعلق احادیث اورنماز اور جماعت ترک کرنے پر وعیدیں پڑھ کر حکمت کے ساتھ انہیں نصیحت کیجیے،اللہ تعالیٰ ان شاء جلد حالات تبدیل فرمادیں گے۔

 چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ"(الانعام، 164)

ترجمہ:’’اور کوئی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا‘‘ (بیان القرآن، ج:1، ص:410، ط:رحمانیہ)

تفسیر الطبری میں ہے:

"(ولا تزر وازرة وزر أخرى)، يقول: ولا تأثم نفس آثمة بإثم نفس أخرى غيرها، ولكنها تأثم بإثمها، وعليه تعاقب، دون إثم أخرى غيرها."

(سورت: الانعام، آیت:164، ج:12، ص:286، ط:دار التربیه والتراث)

روح المعانی میں ہے:

"قوله تعالی:ولا تزر وازرة وزر أخری‘‘أی لاتحمل نفس آثمة’’وزر أخری‘‘ أی إثم نفس أخری بل تحمل کل نفس وزرها."

(روح المعانی: ج:22، ص: 184، ط: امدادیه)

تفسیر مظہری میں ہے:

"(وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرىٰ)أي لا تحمل حاملة حمل نفس أخری أي ثقلها من الآثام بل إنما تحمل وزر نفسها."

(سورۃ الإسراء، الآیة: 15،ج:5، ص:421، ط: رشیدیة)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"مطلب: في أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية.قال الله تعالى:{ولتكن ‌منكم ‌أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر}قال أبو بكر: قد حوت هذه الآية معنيين، أحدهما: وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر. والآخر: أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره، لقوله تعالى:{ولتكن ‌منكم ‌أمة}وحقيقته تقتضي البعض دون البعض، فدل على أنه فرض الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين.عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أول ما دخل النقص على بني إسرائيل كان الرجل يلقى الرجل فيقول يا هذا اتق الله ودع ما تصنع فإنه لا يحل لك، ثم يلقاه من الغد فلا يمنعه ذلك أن يكون أكيله وشريبه وقعيده فلما فعلوا ذلك ضرب الله تعالى قلوب بعضهم ببعض" ثم قال:{لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون}إلى قوله:{فاسقون}، ثم قال: "كلا والله لتأمرن بالمعروف وتنهون عن المنكر ولتأخذن على يدي الظالم ولتأطرنه على الحق أطرا وتقصرنه على الحق قصرا"... فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن من شرط النهي عن المنكر أن ينكره ثم لا يجالس المقيم على المعصية، ولا يؤاكله، ولا يشاربه. وكان ما ذكره النبي صلى الله عليه وسلم من ذلك بيانا لقوله تعالى: {ترى كثيرا منهم يتولون الذين كفروا}فكانوا بمؤاكلتهم إياهم ومجالستهم لهم تاركين للنهي عن المنكر لقوله تعالى:{كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه}.وجائز مع ذلك تركهم لمن خاف إن أقدم عليهم بالقتل أن يقتل; إلا أن عليه اجتنابهم والغلظة عليهم بما أمكن وهجرانهم. وكذلك حكم سائر من كان مقيما على شيء من المعاصي الموبقات مصرا عليها مجاهرا بها فحكمه حكم من ذكرنا في وجوب النكير عليهم بما أمكن وتغيير ما هم عليه بيده، وإن لم يستطع فلينكره بلسانه، وذلك إذا رجا أنه إن أنكر عليهم بالقول أن يزولوا عنه ويتركوه، فإن لم يرج ذلك، وقد غلب في ظنه أنهم غير قابلين منه مع علمهم بأنه منكر عليهم وسعه السكوت عنهم بعد أن يجانبهم ويظهر هجرانهم; لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "فليغيره بلسانه فإن لم يستطع فليغيره بقلبه". وقوله صلى الله عليه وسلم: "فإن لم يستطع" قد فهم منه أنهم إذا لم يزولوا عن المنكر فعليه إنكاره بقلبه سواء كان في تقية أو لم يكن، لأن قوله: "إن لم يستطع" معناه أنه لا يمكنه إزالته بالقول فأباح له السكوت في هذه الحال."

(سورۃ آل عمران، مطلب فی بیان معنی التقیه و حکمها، باب الامر بالمعروف والنهی عن المنکر، ج:2، ص:41/37، ط:دار الکتب العلمیه)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مبارکہ ہے:

"من رأی منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانه، فإن لم یستطع فبقلبه، وذلک أضعف الإیمان."

(صحيح مسلم، کتاب الإیمان، باب بيان كون النهي.....، ج:1، ص:50، رقم:49، ط:دار الطباعة العامرة۔تركيا)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں