بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا استقبال کرنا یا عبادت کرنا


سوال

شوہر جب کام سے واپس آئے اور بیوی قرآن یا نماز پڑ رھی ہو تو کیا وہ اس کام میں لگی رہے یا شوہر کو وقت دے؟

جواب

بیوی کو  چاہیے کہ اپنی عبادات  شوہر کے آنے سے پہلے ہی مکمل کرلے،اور شوہر کا استقبال اچھے انداز سے کرے۔ اور اگر بالفرض کبھی رہ جائے تو  فرض نماز مکمل کرکے جلدی شوہر کے پاس آجائے، نفل نماز اور قرآن کی تلاوت کو مؤخر کردے۔

صحيح البخاري (7/ 30):

"باب صوم المرأة بإذن زوجها تطوعاً

حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتصوم المرأة وبعلها شاهد إلا بإذنه»".

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ عورت کو شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفل) روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھ پر رمضان المبارک کے قضا روزے لازم ہوتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی مشغولیت کی وجہ سے میں آئندہ سال شعبان تک قضا نہیں کرسکتی تھی۔  (بخاری و مسلم)

شعبان المعظم میں چوں کہ رسول اللہ ﷺ خود کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے تو ان دنوں میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی رمضان المبارک کے روزے قضا کرلیا کرتی تھیں۔ 

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 184):

"أي: هذا باب في بيان حكم صوم المرأة حال كونها ملتبسةً بإذن زوجها في صومها. قوله: (تطوعاً) يجوز أن يكون بمعنى متطوعةً فيكون نصباً على الحال، ويجوز أن يكون صفة لمصدر محذوف أي: صوماً تطوعاً، وإنما قيد بإذن الزوج؛ لأنها لاتصوم التطوع إلا بإذنه؛ لأن حقه مقدم على صوم التطوع، بخلاف رمضان فإنه لايحتاج فيه إلى الإذن؛ لأنه أيضاً صائم ... والحديث أخرجه مسلم أيضاً، وفي لفظ لايحل للمرأة أن تصوم مكان لاتصوم، وفي لفظ أبي داود لاتصومن امرأة يوماً سوى شهر رمضان وزوجها شاهد إلا بإذنه، ورواه الترمذي أيضاً ولفظه: لاتصوم المرأة وزوجها شاهد يوماً من غير شهر رمضان إلا بإذنه. وقال: حديث أبي هريرة حديث حسن. وأخرجه ابن حبان وصححه. قوله: (وبعلها) أي: زوجها: (شاهد) أي: حاضر، يعني مقيم في البلد إذ لو كان مسافراً فلها الصوم؛ لأنه لايتأتي منه الاستمتاع بها. وقال الكرماني: قال أصحابنا: النهي للتحريم. وقال النووي في (شرح المهذب) : وقال بعض أصحابنا: يكره فلو صامت بغير إذنه صح وأثمت".

الفتاوى الهندية (1/ 201):

"ويكره أن تصوم المرأة تطوعاً بغير إذن زوجها إلا أن يكون مريضاً أو صائماً أو محرماً بحج أو عمرة وليس للعبد والأمة أن يصوما تطوعاً إلا بإذن المولى كيفما كان، وكذا المدبر والمدبرة وأم الولد فإن صام أحد من هؤلاء للزوج أن يفطر المرأة وللمولى أن يفطر العبد والأمة وتقضي المرأة إذا أذن لها زوجها أو بانت ويقضي العبد إذا أذن له المولى أو أعتق فأما إذا كان الزوج مريضاً أو صائماً أو محرماً لم يكن له منع الزوجة من ذلك، ولها أن تصوم، وإن نهاها، وليس كذلك العبد والأمة فإن للمولى منعهما على كل حال، كذا في الجوهرة النيرة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں