بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر اسقاط حمل پہ مجبور کرے تو اس کا حکم


سوال

اگر شوہر  اسقاطِ حمل پہ مجبور کرے، تو بیوی کیا کرے؟

جواب

 واضح رہے  کہ اگر حمل سے عورت  کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی اور چار ماہ پورے ہونے پر  کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   کسی بھی وقت جائز نہیں، بلکہ بڑا گناہ ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  بیوی کو چاہیے کہ اگرچار ماہ  گزرچکے ہوں یا چار ماہ  نہیں گزرے اور بیماری وغیرہ کا کوئی عذر بھی نہیں  تو کسی طریقے سے شوہر کو سمجھائے اور  اللہ پر توکل کر کے اس بچے کا اسقاط نہ کروائے، بلکہ شریعت کا حکم سمجھ کر اس ذمہ داری کو اٹھانے کی ہمت کرے۔

درمختار میں ہے:

"و یکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور".

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(درمختار مع رد المحتار، ج۵ ص ۳۷۹ قبیل کتاب إحیاء الموات)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں