بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر حالتِ حیض میں وطی کرتا ہو تو کیا بیوی تنسیخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرسکتی ہے؟


سوال

اگر خاوند اپنی بیوی سے حیض کے دنوں میں وطی کرتا ہو اور منع کرنے کے باوجود باز نہ آتا ہو، تو کیا اس بنیاد پر عورت عدالت سے تنسیخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  خاوند اپنی بیوی کے ساتھ ماہواری کے ایام میں ہم بستری کرتا ہے، تو وہ سخت گناہ کا مرتکب ہے، اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کو منع کرے اور سمجھائے، اگر بیوی کے سمجھانے سے نہ سمجھے تو خاندان کے معزز افراد اور بزرگوں کے ذریعے سے شوہر کو سمجھایا جائے اور اگر شوہر منع کرنے کے باوجود اپنی اس قبیح حرکت سے باز نہیں آتا تو پھر بیوی کو اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ طلاق یا خلع کے مطالبہ کے  ذریعے اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرلے، لیکن اگر شوہر اسے طلاق یا خلع نہ دے تو بیوی عدالت سے تنسیخِ نکاح کراسکتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

’’وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًۭى فَٱعْتَزِلُوا۟ ٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ.‘‘ (سورة البقرة:۲۲۲)

ترجمہ: ’’اور لوگ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ وہ گندی چیز ہے، تو حیض میں تم عورتوں سے علیحدہ رہا کرو، اور ان سے قربت مت کیا کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جاؤ جس جگہ سے تم کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے (یعنی آگے سے) یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌طاعة لمخلوق في معصية الخالق». رواه في شرح السنة."

(كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثاني، ج: 2، ص: 1092، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

شرح الکبیر للدردیر میں ہے:

"(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرهالا بمنعها من حمام وفرجة وتأديبها على ترك صلاة أو تسر أو تزوج عليها ومتى شهدت بينة بأصل الضرر فلها اختيار الفراق."

(باب في النكاح ومايتعلق به، الكلام على أحكام النشوز، ج: 2، ص: 345، ط: دار الفكر بيروت) 

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404101727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں