بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر گم ہوجانے کی صورت میں دوسرے نکاح کا حکم


سوال

اگر کسی عورت کا شوہر گم ہو جائے تو وہ دوسرا نکاح کتنی مدت بعد کر سکتی ہے؟

جواب

جس عورت كا شوہر گم ہو جائے اور تلاش کرنے کے باوجود اس کا کچھ پتہ نہ چلے، اور عورت کے لیے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو، اور شوہر کے بغیر پاکدامنی سے زندگی گزارنا بھی  مشکل ہو؛ تو عورتعدالت میں گم شدہ  شوہر سے نکاح فسخ کرانے کے لیےمقدمہ دائر کرے، اور نکاح نامہ یا گواہوں کے ذریعے مفقود شوہر سےنکاح ثابت کرے، پھر اس کے نان و نفقہ نہ دینے کو دو گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے، اور عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد  اس کے  انتظار کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔اور اگر  ایک سال کا نان و نفقہ نہیں ہے، یا نان و نفقہ کا انتظام تو ہے،لیکن ایک سال تک پاکدامنی سے رہنا  مشکل ہے؛  تو عورت کم سےکم ایک ماہ گزرنے کے بعد عدالت سے (فسخ نکاح کی ڈگری لینے کے لیے)دوبارہ رجوع کرے،  اور اگر یہ رجوع پاکدامنی کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے ہو، تو جج کے سامنے قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی؛  اس کار روائی کے بعد عدالت  فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے، عدالت کے فیصلے کے بعد عورت عدت   گزار کر دوسرا نکاح کرسکتی ہے؛اگر عدالت نےشوہر کو مردہ قرار دے کرفسخِ نکاح کا فیصلہ کیا ہو، تو عورت عدتِ وفات (چار ماہ دس دن) گزارے گی، اور اگر شوہر کو مردہ قرار دیے بغیر نکاح فسخ کیا گیا ہو، تو اس صورت میں عدالتی فیصلے کے بعد عورت  عدتِ طلاق  گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ 

واضح رہےکہ  اگر  دوسری  شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو  مذکورہ  خاتون کا  نکاح اس کے  پہلے شوہر  سے بدستور  قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛   جس کی وجہ سے  دوسرے شوہر سے فوراً  علیٰحدگی  لازم ہوگی۔ اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہو تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہوگا  جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔

ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ  زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے۔

غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (رجسٹر نمبر 1، صفحہ نمبر 27)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"زوجہ مفقود کے لیے قاضی کی عدالت میں فسخِ نکاح کی درخواست کے بعد جو مزید چار سال کے انتظام کا حکم دیا گیا ہے یہ اس صورت میں ہے جب کہ عورت کے لیے نفقہ اور گزارے کا بھی کچھ انتظام ہو اور عفت اور عصمت کے ساتھ یہ مدت گزارنے پر قدرت بھی ہو، اور اگر اس کے نفقہ اور گزارے کا کوئی انتظام نہ ہو، نہ شوہر کے مال سے، نہ کسی عزیز و قریب یا حکومت کے تکفل سے اور خود بھی محنت و مزدوری، پردہ و عفت کے ساتھ کر کے اپنا گزارا نہیں کر سکتی، تو جب تک صبر کر سکے، شوہر کا انتظار کرے، جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو، اس کے بعد قاضی یا کسی مسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے، اور اگر نفقہ اور گزارے کا انتظام ہے مگر بغیر شوہر کے رہنے میں اپنی عفت و عصمت کا اندیشہ قوی ہے، تو سال بھر صبر کرنے کے بعد قاضی کی طرف مرافعہ کرے، اور دونوں صورتوں میں گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ اس کا شوہر فلاں اتنی مدت سے غائب ہے، اور اس نے اس کے لیے کوئی نان و نفقہ نہیں چھوڑا، اور نہ کسی کو نفقہ کا ضامن بنایا، اور اس نے اپنا نفقہ اس کو معاف بھی نہیں کیا، اور اس عورت پر حلف بھی کرے، اور دوسری صورت یعنی عفت کے خطرے کی حالت میں قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی، قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہو جائے، تو قاضی اس کو  کہہ دے کہ میں نے تمہارا نکاح فسخ کر دیا، یا شوہر کی طرف سے طلاق دے دی، یا خود عورت کو اختیار دے دے کہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرے اور جب عورت اپنے نفس پر طلاق واقع کرے تو قاضی اس طلاق کو نافذ کر دے۔"

(جلد:5، صفحہ:422، طبع: ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا.. 

قال ابن عابدين: قلت: ويؤيده ما يأتي قريبًا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ".

(ج5، ص414، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ"

(ج4، ص295، ط: دار الفكر)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] فكيف يستقيم تركها مع الثاني، وإذا اختار الأول المهر، ولكن يكون النكاح منعقدا بينهما فكيف يستقيم دفع المهر إلى الأول، وهو بدل بضعها فيكون مملوكا لها دون زوجها كالمنكوحة إذا وطئت بشبهة، فعرفنا أن الصحيح أنها زوجة الأول، ولكن لا يقربها لكونها معتدة لغيره كالمنكوحة إذا وطئت بالشبهة.

وذكر عن عبد الرحمن بن أبي ليلى - رحمه الله - أن عمر - رضي الله عنه - رجع عن ثلاث قضيات إلى قول علي - رضي الله عنه -، عن امرأة أبي كنف، والمفقود زوجها، والمرأة التي تزوجت في عدتها."

( كتاب المفقود، ج11، ص37، ط: دار المعرفة بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں