بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر گھر بسانا نہیں چاہتا ہو تو خلع لینے کا حکم


سوال

میری شادی کو پندرہ سال ہو گئے ہیں،  میں نے ہر حال میں گزارہ کیا،  شوہر  میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا ، کیا میں خلع لے سکتی ہوں؟  مجھے نہیں رہنا،  میرا شوہر کسی اور کے پیچھے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو چاہیے کہ شوہر کی خدمت و اطاعت وخوش اخلاقی وغیرہ کے ذریعے کسی طرح شوہر کو اپنی طرف مائل کرکے نبھانے کی کوشش کرے،اسی طرح  خاندان کے  سمجھ دار و دیانت دار بڑوں کی مددسے شوہر کو گھر بسانے پر راضی کیا جائے،  اگر کوشش کے باوجود بھی شوہر  گھر بسانا نہیں  چاہتا ہو، اور اپنے رویہ میں  تبدیلی  بھی نہیں لاتا،  اور میاں بیوی کے مزاجوں میں شدید اختلاف ہو، جس کی وجہ سے اکٹھے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو، یاایک ساتھ رہنے میں اللہ عزوجل کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ممکن نہ ہو،   تو   پھر  بأمر مجبوری سائلہ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  پھر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرے، کیوں کہ خلع   بھی مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، لہذا   اگرعورت  شوہر  کی اجازت اور رضامندی کے بغیر عدالت سے    خلع  لے  لے تو شرعاً ایسی عدالتی  خلع معتبر نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر، والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة، كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى: ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث: «أبغض الحلال إلى الله الطلاق»۔ قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ."

(‌‌كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 228، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3، ص: 441، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، فصل وأما الذي يرجع إلى المرأة، ج: 3، ص: 145، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611102810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں