بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر غائب ہوجائے تو عدت اور فسخِ نکاح کا حکم


سوال

 میری بہن کو اس کے پہلے شوہر نے نا گزیر وجوہ کی بنا پر شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی طلاق دے دی تھی ، عدت کے بعد ہم نے اس کی دو سری شادی کردی تھی مگر اس کا دوسرا شوہر بھی اس کے ساتھ نباہ نہ کرسکا  کچھ مہینوں کے بعد وہ گھر آتا اور بے دلی سے وہ وقت گذار تا ہا اور ہمار ی کو شش کے بعد بھی وہ اپنا رویہ درست نہ کرسکا ا،ور ایک دن اچانک غائب ہو گیا تقریبا عرصہ بیسں 20 سال سے وہ متواتر لاپتہ رہا تلاش بسیار کے با وجود وہ نہ مل سکا اور اس کا تاحال  کوئی پتہ  نہیں  ہے نہ ہی اس کے عزیز رشتہ داروں سے کو رابطہ ہو سکا اب میری بہن نے یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ وہ اس صورت میں کیا کرے آیا وہ کہیں اور نکاح کر سکتی ہے؟ تو اس کے لیے شرعی مسئلہ کی تفصیل بتادیں ۔

جواب

واضح رہے کہ شوہر کے غائب ہوجانے کی صورت میں  اگر بیوی کے لیے پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں مقدمہ دائر کرے،عدالت سرکاری تعاون سے تحقیقات کرنے کے بعد ایک سال کی مدت مقرر کرے، سال گزرنے پر بھی شوہر نہ آئے تو عدالت فسخِ نکاح کا فیصلہ کردے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد عدتِ وفات (حاملہ نہ ہونے کی صورت میں چار ماہ دس دن اور حاملہ ہونے کی صورت میں وضعِ حمل یعنی بچہ کی پیدائش) گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بہ شرط صحت سوال اگر واقعۃ  سائل کا بہنوئی غائب ہو گیا ہواورتقریبا عرصہ بیسں  (20 )سال سے وہ متواتر لاپتہ ہی ہےاور تلاش بسیار کے با وجود وہ نہ مل سکا اور اس کا تاحال  کوئی پتہ  نہیں  ہے، نہ ہی اس کے عزیز رشتہ داروں سے کو ئی رابطہ ہو سکا  ا اور عورت کے لیے شوہر کے بغیر عفت  اور پاکدامنی کے ساتھ گزارہ ممکن نہ ہو  یا نان ونفقہ کے مسائل  ہوں تو عورت  میں مسلمان جج  کی عدالت میں تنسیخ  نکاح کی کیس دائر کرے اور گواہوں کے ذریعہ اپنے شوہر کی گمشدگی کو ثابت کرے اس کے بعد مذکورہ شخص کو اپنے ذرائع    سے تلاش کرائے اگر اس کے باجود اس شخص کا پتہ نہ لگے تو عدالت عورت کے احوال دیکھ کر کوئی مدت طے کرے ایک ماہ سے کم نہ ہو اگراس مقررہ مدت میں بھی  شوہر نہ آئے  تو عدالت   فسخ نکاح کا فیصلہ کردے عدالت کے فیصلے کے بعدعورت  عدتِ وفات گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔

البتہ  اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛  اس لیے دوسرے شوہر سے فوراً علیٰحدگی لازم ہوگی۔ 

المبسوط للسرخسي میں ہے:ـ 

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس."

(كتاب المفقود،٣٧/١١،ط: مطبعة السعادة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله (خلافا لمالك ) فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين وهو مذهب الشافعي القديم ۔۔۔وعند أحمد إن كان يغلب على حاله الهلاك كمن فقد بين الصفين أو في مركب قد انكسر أو خرج لحاجة قريبة فلم يرجع ولم يعلم خبره فهذا بعد أربع سنين يقسم ماله وتعتد زوجته بخلاف ما إذا لم يغلب عليه الهلاك كالمسافر لتجارة أو لسياحة فإنه يفوض للحاكم في رواية عنه وفي أخرى يقدر بتسعين من مولده كما في شرح ابن الشحنة لكنه اعترض على الناظم بأنه لا حاجة للحنفي إلى ذلك أي لأن ذلك خلاف مذهبنا فحذفه أولى وقال في الدر المنتقى ليس بأولى لقول القهستاني لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اھ۔۔۔ وقد قال في البزازية الفتوى في زماننا على قول مالك وقال الزاهدي كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة."

(کتاب المفقود، مطلب في الإفتاء بمذهب مالك في زوجة المفقود،٢٩٥/٤،ط:سعيد) 

فیہ ایضا:

"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ".

 (كتاب المفقود ،٤١٤/١ ط:سعيد)

اعلاء السنن میں ہے: 

" قال الزیلعی: لانه یختلف باختلاف البلاد وکذا غلبة الظن تختلف بإختلاف الأشخاص فإن الملک العظیم إذا انقطع خبرہ یغلب علی الظن فی أدنی مدۃ أنه قدمات ومقتضاہ أنه یجتھدو یحکم القرائن الظاھرۃ الدالة علی موته وعلی ھذا یبتنی مافی جامع الفتاوی حیث قال و إذا فقد فی المملکة فموته غالب فیحکم به کما اذا فقد فی وقت الملاقاۃ مع العدوا ومع قطاع الطریق وما أشبه ذلک حکم بموته لأنه الغالب فی ھذہ الحالات وافتی به بعض مشایخنا وقال أنه افتی به قاضی زادہ صاحب بحر الفتاوی لکن لا یخفی أنه لابد من مدۃ طویلة یغلب علی الظن موته لا بمجرد فقدہ عند ملاقاۃ العدو أوسفر البحر ونحوہ الخ."

(كتاب المفقود ،باب امرأته حتى يأتيها البيان ،٤٥/١٣،ط: ادارة القرآن )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں