بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر باوجود قدرت کے بیوی کاحق ادا نہ کرے تو اس کا حکم


سوال

اگر کوئی مرد (باوجود قدرت کے)عورت کی جسمانی ضرورت پوری نہیں کرتا تو عورت کے لئے کیا حکم ہے اور اگر ایسے میں عورت سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ تو کیا  صرف  عورت گناہ  گار ہوگی یا مرد  بھی اس گناہ میں شریک ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں  کے  ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں اس  کے  ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اس کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا اور  اس کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا سب داخل ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں    بہترین ہوں"۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا "(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي".

(مشکاة المصابیح، 2/282،  باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے  فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے"۔

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں"۔

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

 یہی وجہ ہے کہ فقہاءِ کرام نے صراحت کی ہے کہ جس طرح سے شوہر کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ کو پورا کرنا بیوی پر لازم ہے، بشرط یہ کہ کوئی شرعی  مانع نہ ہو، بالکل اسی طرح بیوی کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ  یا خواہش پر اسے پورا کرنا شوہر پر واجب ہے، پس اگر شوہر عورت کے اِس مطالبہ کو پورا نہ کرے تو حق تلفی کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔لیکن اگر عورت سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے،تووہ خود ہی اِس گناہ کی ذمہ دار ہوگی،اُسی سے اِس کا مؤاخذہ ہوگا،شوہر سے اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا،البتہ شوہر پر بیوی کی حاجت پوری نہ کرنے   اور اُس کی حق تلفی  کرنےکاگناہ ہوگا۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

( البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وللزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج، ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة والزيادة على ذلك تجب فيما بينه، وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، فلا يجب عليه في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم."

( كتاب النكاح، فَصْل بَيان حكْمِ النِّكاحِ، 2 / 331، ط: دار الكتب العلمية)

تفسیر مظہری میں ہے:

 "(وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى) أى لا تحمل حاملة حمل نفس أخرى أى ثقلها من الآثام بل إنما تحمل وزر نفسها"۔

(سورۃ الإسراء،آیت:15، 421/5، ط:رشیدیة)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں