بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر بچے کی نفی کرے تو نسب کس سے ثابت ہوگا؟


سوال

ایک عورت حالت حیض میں ہو، اور اس دن اس کا خاوند بیرون ملک سعودیہ عرب روانہ ہوجائے پھر چودہ ماہ بعد بیٹا پیدا ہو، جب کہ بطور ثبوت عورت کے سگے بڑے بھائی کی آڈیو وائس بھی موجود ہو کہ اس کی بہن کی ایک بندے سے ایسی حرکتیں تھیں کہ وہ زبان سے ادا نہیں کرسکتا اور اپنی آڈیو میں اقرار کرتا ہے کہ میری بہن غلط تھی، آیا یہ بچہ باپ کی ولدیت میں جائے گا یا نہیں؟ کیوں کہ عورت کو خاوند نے طلاق اس حرام بچے کی وجہ سے دی ہے، اور اب کچھ لوگوں نے بچے کی ولدیت عورت کے خاوند کے نام لگانے کی کوشش کی ہے، اور عورت بھی یہ کہتی ہے کہ یہ بچہ میرے خاوند کا ہے، جب کہ خاوند انکار کررہا ہے کہ جب میں نے ہم بستری ہی نہیں کی تو میرا کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ نکاحِ صحیح کے بعد  اگر کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوتا ہے، اگر کسی صورت میں یقین بھی ہو کہ بچہ شوہر کے نطفہ سے نہیں ہےبلکہ زنا سے پیدا شدہ ہےپھر بھی اس کا نسب شوہر سے ہی ثابت ہوگا؛ جیسا کہ حدیث میں ہے "بچہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہےاور زانی کے لیے (نسب و میراث سے) محرومی ہے"۔

البتہ اگر نکاح  صحیح کے بعد پیدا ہونے والا بچہ شوہر کے نطفہ سے نہ ہواور شوہر اس کے نسب کا انکار کرے تو اس کا انکاراس وقت تک  معتبر نہیں ہے جب تک کہ شوہر عدالت میں لعان کے ذریعہ نسب کی نفی کرے پھرقاضی لعان کی شرائط کے مطابق نسب کی نفی کا فیصلہ کردے، اس صورت میں بچہ کا نسب اس کی ماں سے ثابت کیا جاتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب دونوں کے درمیان نکاح برقرار تھا، اس دوران بچے کی ولادت ہوئی ہے،اورشوہر نے عدالت سے بچہ کے نسب کی نفی نہیں کروائی  تو شرعاً مذکورہ بچے کی نسبت شوہر  کی  طرف ہی کی جائے گی۔  

صحیح بخاری میں ہے:

"الولد للفراش وللعاهر الحجر"۔

(كتاب الفرائض، ص/999، ج/2، ط/قدیمی)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وبعض أهل المدينة احتجوا بقوله " الولد الفراش " أن الرجل إذا نفى ولد امرأته لم ينتف به ولم يلاعن به قالوا لأن الفراش يوجب حق الولد في إثبات نسبه من الزوج والمرأة فليس لهما إخراجه منه بلعان ولا غيره وقال جماهير الفقهاء من التابعين ومن بعدهم منهم الأئمة الأربعة وأصحابهم إذا نفى الرجل ولد امرأته يلاعن وينتفى نسبه منه ويلزم أمه"۔

(باب تفسیر المشبھات، ص:170، ج:11، ط:دار احیاء التراث العربی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط۔"

(الباب الخامس عشر فی ثبوت النسب، کتاب الطلاق، ص:536، ج:1، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"و إن صدقته أربعًا لأنه ليس بإقرار قصدًا، و لاينتفي النسب لأنه حق الولد فلايصدقان في إبطاله.

(قوله: و لاينتفي النسب) لأنه إنما ينتفي باللعان ولم يوجد، وبه ظهر أن ما في شرحي الوقاية والنقاية - من أنها إذا صدقته ينتفي - غير صحيح كما نبه عليه في شرح الدرر والغرر بحر."

(باب اللعان، کتاب الطلاق، ص:486، ج:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں