بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر اور بیوی کا دو طلاق کا اقرار اور سسرال والوں کا تین طلاق کا دعوی کرنا


سوال

افسوس كے ساتھ لکھ رہا ہوں  کہ ميں ذہنی اور مالی پریشانی کی وجہ سے اپنی  پیاری بیوی کو  ان کی بہن ، بھائی اور بہنوئی کے سامنے دو بار طلاق کے لفظ استعمال کرچکا ہوں ، یہ بات 5جولائی  2020 کی ہے،  جب  سے بیوی کو واپس لانا چاہتا ہوں،  لیکن اس کے گھر والے نہیں بھیج رہے،  کہہ رہے  ہیں کہ تین  طلاق واقع ہوگئی ہے ، جب کہ میں نے صرف دو بار کہا تھا، میری بیوی بھی گواہ ہے اس بات کی اور ساتھ رہنا چاہتی ہے، میں اپنی بیوی کو واپس لانا چاہتا ہوں ، اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں ، میں نے صرف دو بار الفاظ ادا کيے تھے، اللہ  کے حضور توبہ   اور معافی  بھی روز مانگ رہا ہوں، وہ میری عزت ہے، اب اسے کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔ راہ نمائی فرمائیں۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں  ذکر کردہ تفصیل اگر واقعے  کے مطابق اوردرست ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو  5جولائی 2020 کو دو طلاقیں دی تھیں، اور آپ کی بیوی بھی اس بات کا اقرار کررہی ہے کہ  آپ نے دو ہی طلاقیں دی تھیں، اور سسرال والے جو تین طلاق کا دعویٰ کررہے ہیں  وہ اپنے اس دعوی کو شرعی گواہان سے ثابت نہیں کرسکیں کہ   ان کے سامنے تین طلاقیں دی گئی ہیں تو آپ کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی؛ لہٰذا  اگر آپ اللہ کی قسم اٹھاکر یہ کہہ دیتے ہیں تو  آپ کی بیوی پر دو  ہی طلاق واقع ہوں گی۔

اب اگر آپ نے پانچ جولائی 2020 کو  دو طلاقیں دینے کے بعد  بیوی کی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں   رجو ع كر لیا تھا  مثلًا یہ کہہ دیا تھا کہ میں رجوع کرتا ہوں،  اگر چہ یہ جملہ بیوی کی غیر موجودگی میں کہا ہو، تب بھی رجوع ہوجائے گا، یا عملًا  رجوع کرلیا ہو مثلًا ازدواجی تعلق قائم کرلیا وغیرہ تو اس سے بھی رجوع ہوجائے گا اور نکاح برقرار رہے گا، اور آپ کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔

اور اگر آپ نے  بیوی کی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع نہیں کیا تھا تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہوگیا ہے، اب دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرنا ضروری ہے،  اور آئندہ کے لیے آپ کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔

دو طلاقوں کے بعد عدت گزرجانے کی وجہ سے  نکاح ختم ہونے  کے بعد اگر دوبارہ دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور شوہر اپنے سابقہ رویہ سے توبہ تائب بھی ہوچکا ہے تو  لڑکی کے گھر والوں کے اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے، اور ان کو گھر بسانے دینا چاہیے، بلاوجہ   علیحدگی کروانا  یا اس پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

         اعلاء السنن میں ہے:

"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر  .... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."

(15/ 350، کتاب الدعویٰ، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل إمرأته تطليقةً رجعيةً او تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية".

(الباب السادس في الرجعة، ١/ ٤٧٠، ط: رشيدية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں