بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر اپنی بیوی سے 55 سال طلاق یا فسخ نکاح کے بغیر جُدا رہے تو نکاح برقرار رہتا ہے


سوال

میرے تایا کا انتقال تائی کی  رخصتی سے پہلے ہو گیا تھا، میرے والد نے اپنی بھابی سے نکاح و رخصتی بھی کر لی، پھر اولاد نہ ہونے پر 4-5 سال بعد بنا طلاق چھوڑ دیا، پھر میری والدہ سے  نکاح کر لیا جس سے ہم 5 بہن بھائی ہیں، وراثت میں پہلی بیوی کیا حق رکھے گی ؟ اور کتنا رکھے گی؟ مطلب تایا کی بیوہ ہونے کا بھی حق یا حصہ ملے گا؟ اور کیا بنا طلاق 55 سال رہنے پر میرے والد کی طرف سے بھی حصہ دار ہوں گی، مطلب دو حصے؟ کیا اتنا عرصہ والد سے رجوع یا تعلق نہ ہونے سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں ؟ واضح رہے کہ والد اور میری والدہ ابھی الحمداللہ  حیات ہیں۔

جواب

مذکورہ صورتِ حال میں اگر آپ کے والد صاحب نے آپ کی تائی کو نہ اب تک طلاق دی ہے اور نہ ہی آپ کی تائی نے ان سے خلع یا عدالت کے راستے سے فسخِ نکاح وغیرہ کے ذریعہ چُھٹکارا حاصل کیا ہے تو ایسی صورت میں آپ کی تائی اب تک آپ کے والد صاحب کے نکاح میں ہی باقی ہیں، فی الحال آپ  کے والد شرعاً دو بیویوں کے شوہر ہیں، ایک آپ کی والدہ اور دوسری آپ کی تائی؛  لہٰذا شرعی طریقہ سے جُدائی ہونے سے پہلے پہلے  (اگر آپ کے والد کا انتقال ہوجاتا ہے تو) دونوں خواتین آپ کے والد کی شرعاً وارث ہوں گی۔

البتہ آپ کے والد  کا یہ عمل کہ 55 سال تک پہلی بیوی سے نہ تعلق قائم کرنا ، نہ نفقہ دینا  اور نہ ہی طلاق دینا، شرعاً جائز نہیں ہے، بیوی کے بہت سے حقوق شوہر پر لازم ہیں، شوہر کا بیوی کو  نکاح کے بندھن میں رکھ کر  اس کو اس طرح کی اذیت دینا انتہائی قبیح عمل ہے، لہذا ان کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی پہلی بیوی کو نکاح میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے تمام حقوق ادا کریں، ورنہ ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کردیں ، اور بہرصورت بیوی کی حق تلفی پر اُن سے معافی تلافی کرلیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء 129]
ترجمہ : اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو، گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے، تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو ( یعنی نہ توا س کے حقوق ادا کیے جائیں کہ خاوند والی سمجھی جائے اور نہ اس کو طلاق دی جائے کہ بےخاوند والی کہی جائے۔) اور اگر اصلاح کرلو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔(بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

’’۔۔۔ اور اے مردو!  اگر تم عورتوں کے ساتھ سلوک اور احسان کرو اور ان کی حق تلفی سے بچو تو  بے شک جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے، تمہیں اس کی جزا دے گا اور ہم تم کو بتلائے دیتے ہیں کہ تم متعدد بیبیوں کے درمیان پوری برابر ہرگز نہیں کرسکتے گو تم کتنا ہی چاہو یعنی جس شخص کی کئی بیبیاں ہوں تو یہ اس کے قدرت اور اختیار سے باہر ہے کہ محبت اور میلانِ قلبی میں سب کو برابر رکھے؛ کیوں کہ جب صورت اور سیرت میں سب برابر نہیں تو سب کے ساتھ محبت کیوں کر ہوسکتی ہے، جب متعدد عورتوں میں پوری برابری نہیں کرسکتے تو ایسا بھی نہ کرو کہ بالکل اور ہمہ تن ایک ہی کی طرف جھک جاؤ اور دوسری بی بی کو معلق چھوڑدو، نہ بیوہ ہی ہے اور نہ خاوند ہی والی، نہ نکاح کرسکتی ہے  ا ورنہ شوہر سے فائدہ اٹھاسکتی ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر محبت اور میلانِ قلبی میں مساوات نہیں کرسکتے تو یہ بھی نہ کرو کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ میں بھی ایک ہی طرف کو جھک جاؤ، یہ تو تمہاری قدرت میں ہے کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ وغیرہ میں سب کے ساتھ یک ساں سلوک رکھو۔

  نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجودیکہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق تھیں، مگر پھر بھی تمام اَزواج کے حقوق برابر ادا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں اختیار کے موافق ہر ایک کا حق برابر ادا کرتا ہوں، مگر جو امر میرے اختیار میں نہیں یعنی قلبی محبت اس میں تو مجھ کو معذور  رکھ۔

اور اگر تم اصلاح کرلو یعنی گزشتہ میں جو بےانصافی کرچکے ہو اس کی تلافی کرلو اور آئندہ کے لیے عورت کے حق میں ناانصافی سے بچتے رہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے تمہاری گزشتہ کوتاہیوں اور خطاؤں کو معاف کردے گا اور اگر صلح اور موافقت کی کوئی صورت نہ ہوسکے اور میاں بیوی طلاق یا خلع کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اللہ ہر ایک کو کفایت کرے گا اپنی وسعت سے، یعنی خدا ہر ایک کا کارساز ہے مرد کو دوسری عورت مل جائے گی اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا اور روزی میں ایک دوسرے کا محتاج نہ رہے گا، اور ہے اللہ وسعت والا اور حکمت والا، اس کی توانگری اور رحمت بہت وسیع ہے اور اس کے تمام اَحکام حکمت پر مبنی ہیں،  اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اس کی ملک ہے جس کو جتنا چاہے دے، یہ اس کے واسع ہونے کی دلیل ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا وسعت ہوسکتی ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی کل چیزوں کا مالک ہے‘‘۔(معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200754

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں