بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر اور اس کی والدہ کے فحش کاموں میں مبتلا ہونے کی وجہ نکاح ختم کرنا


سوال

میں نے اپنی نابالغہ بیٹی  کا نکاح کرایا، ابھی رخصتی نہیں ہوئی کہ ہمیں معلوم ہوا کہ لڑکے کی والدہ نے طوائفوں کا پیشہ اختیار کرلیا ہے، اور لڑکا یعنی میرا داماد  بھی اس غلط کام میں اپنی والدہ کی معاونت کرتا ہے۔

اب ہم سب گھر والے اس رشتہ کو ختم کرنا  چاہتے ہیں، اس بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کے داماد اور ان کی والدہ نے مذکورہ غلط پیشہ اختیار کیا ہوا ہے ، اور بیٹا بھی اس پیشے میں اپنی والدہ کی معاونت کرتا ہے اور سائل کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ رخصتی کے بعد لڑکی کے لیے مذکورہ گھر میں رہنے کی وجہ سے عزت و ناموس کا مسئلہ ہوگا، یا لڑکی کو ساس یا شوہر غلط کاموں کی طرف راغب یا مجبور کرے گا، تو ایسی صورت میں مذکورہ رشتہ ختم کرسکتے ہیں، ایسی صورت میں مذکورہ لڑکے سے طلاق حاصل کرلی جائے ،ا ور اگر وہ طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو مہر کی معافی کے بدلے میں باہمی رضامندی سے اس سے خلع حاصل کرلی جائے ۔ 

جامع المسانید  والسنن میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا يدخلون الجنة: الديوث، والرجلة من النساء ومدمن الخمر» . قالوا: يا رسول الله ما الديوس؟ قال: «الذى لا يبالى من دخل على أهله» . [قالوا: فما الرجلة من النساء؟ قال: التى تشبه بالرجال."

(محمد بن عمار عن أبيه، ج:6، ص:342، ط: دار خضر)

فتح الباری میں ہے:

"قال: الديوث بدل المنان والديوث بمهملة ثم تحتانية وآخره مثلثة بوزن فروج وقع تفسيره في نفس الخبر أنه الذي يقر الخبث في أهله."

(باب عقوق الوالدين من الكبائر، ج:10، ص:406، ط: المكتبة السلفية)

فتاوی شامی میں ہے:

''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ .''

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به) لقوله تعالى {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] (فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال) لقوله صلى الله عليه وسلم «الخلع تطليقة بائنة."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:4، ص:211، ط: دار الفکر)

المبسوط للسرخسی  ميں  ہے:

"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:6، ص:17، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607100053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں