بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اطاعت سے متعلق ایک روایت کی تحقیق


سوال

خاوند کے کہنے  کی بنا پر گھر سے نہ نکلنے اور پھر والد کا انتقال ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیٹی کی طرف پیغام پہنچایا کہ اللہ رب العزت نے اپنے خاوند کا لحاظ کرنے کی وجہ سے تمہارے باپ کے سب گناہوں کو معاف فرما دیا۔

اس  حدیث کا حوالہ چاہیے؟

جواب

حدیث میں وارد یہ قصہ درج ذیل کتب ِحدیث میں موجود ہے: 

(1)  المنتخب من مسند عبد بن حمیدى (المتوفى: 249ه) (ص: 404) برقم (1369)، ط/ مكتبة السنة القاهرة 1408ھ.

(2) بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث(المتوفى: 282ه) للهيثمي (المتوفى: 807 هـ) (1/ 553) برقم (499)، ط/مركز خدمة السنة والسيرة النبوية المدينة المنورة 1413ه.

(3)    المعجم الأوسط (المتوفى: 360ه)(7/ 332) برقم (7648)، ط/ دار الحرمين القاهرة. 

(4) المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر (المتوفى: 852هـ) (8/ 348) برقم (1669)، ط/ دار العاصمة 1419هـ) نقلًا عن عبد بن حميد والحارث.

(5) مجمع الزوائدللهيثمي (المتوفى: 807 هـ) (4/ 313) برقم (7666)، ط/ مكتبة القدسي القاهرة 1414ه) نقلًا عن الطبراني.

(6) إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة للبوصيري (المتوفى: 840هـ) (4/ 82 و83) برقم (3206)، ط/ دار الوطن للنشر الرياض 1420هـ) نقلاً عن عبد بن حميد والحارث.

(7) مختصرإتحاف السادة المهرةللبوصيري (المتوفى: 840هـ) (3/ 122 و123) برقم (3831 و3832)، ط/ دار الكتب العلمية) نقلاً عن عبد بن حميد والحارث.

ان روایات   کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو گھر سےنکلنے سے منع کیا، اس کے والد بیمار ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیغام بھیج کر دریافت کیا کہ وہ اپنے والد کے پاس جائے یا خاوند کی فرماں برداری کرے؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کی اطاعت کا حکم دیا،  کچھ عرصہ بعد اس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے تو اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا، جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے آپ کے والد کی  مغفرت فرما دی ہے.

مذکورہ تخریج حدیث سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر یہ قصہ   مذکورہ ابتدائی تین کتب میں وارد ہوا ہے ، اور بعد کے حضرات نے انہی حضرات کے حوالہ سے روایت کو نقل فرمایا ہے، اور روایت پر کلام فرمایا ہے۔

حکم حدیث :  

 (1) مسند عبد ابن حمید اور مسند حارث میں یہ حدیث  " یوسف بن عطیة عن ثابت عن أنس"   کے طریق سے مروی ہے،  علامہ بوصیری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  یوسف بن عطیہ ضعیف  روای ہیں:

قال البوصيري:رواه عبد بن حميد بسند ضعيف؛ لضعف يوسف بن عطية. 

(مختصرإتحاف السادة المهرة للبوصيري (المتوفى: 840هـ) (3/ 122) برقم (3831)، ط/ دار الكتب العلمية)

اور اکثر ائمہ  کے نزدیک بھی یہ ضعیف  راوی ہیں اوربعض کے نزدیک تو متروک ہیں۔

(تهذيب الكمال  للمزی (المتوفى: 742ھ) (32/ 443 إلى 447) رقم الترجمۃ (7145 )، ط/مؤسسة الرسالة  بيروت1400ھ)

(2) المعجم الأوسط  میں یہ حدیث "زافر عن ثابت عن أنس"  کی سند سے  مروی ہے، زافر بن سلیمان اگرچہ  حسن الحدیث ہیں، اور  یوسف بن عطیہ کے متابع بن سکتے ہیں،لیکن  ان (زافر) سےروایت کرنے والے عصمہ بن متوکل ہیں،  جو علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق ضعیف ہیں، وہ فرماتے ہیں: 

قال الهيثمي: فيه عصمة بن المتوكل، وهو ضعيف.

(مجمع الزوائد للهيثمي (المتوفى: 807 هـ) (4/ 313) برقم (7666)، ط/ مكتبة القدسي القاهرة 1414ه)

لیکن حقیقت یہ ہے کہ  یہ مختلف فیہ راوی ہیں، ان کی جرح و توثیق میں دونوں طرح کے اقوال ہیں،  لیکن  ان پرجرح ، ضبط کی کمی کی وجہ سے  ہے، عدالت کی وجہ سے نہیں۔

(لسان الميزان للذهبي(المتوفى: 852هـ) (٥/ ٤٣٩) رقم الترجمة (5216)، ط/ دار البشائر الإسلامية 2002ء) 

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں