بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوگر، بلڈ پریشر اور ڈپریشن کے مریض کے لیے روزہ چھوڑنے کا حکم


سوال

میری والدہ صاحبہ شوگر، بلڈ پریشر اور ڈپریشن کی مریضہ ہیں،اکثر روزہ رکھتی ہیں،لیکن بعد میں طبیعت خراب ہوجاتی ہے،تین سال سے اسی طرح ہوتا ہے،ایسی صورتِ  حال میں اگرمریضہ روزہ نہ رکھےتو کیا حکم ہے ؟

جواب

 واضح رہے اگر کوئی بیمار ایسا ہو کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے  واقعتًا اس کی بیماری بڑھنے کا غالب گمان ہو، (یعنی ایسی بیماری میں روزہ رکھنے سے عموماً مرض بڑھ جاتاہو، یا اس شخص کا اپنا تجربہ یہی ہو) یا مسلمان دین دار (کم از کم نماز روزے کا پابند)  ڈاکٹر روزہ چھوڑنے کا کہے  تو ایسے شخص کو شریعت نے روزہ چھوڑنے کی گنجائش دی ہے کہ ابھی روزہ  نہ رکھے، صحت یاب ہو جانے کے بعد اس کی قضا  کر لے ،اور اگر ایسا مرض ہو کہ اس سے صحت یابی کی امید نہ ہو، اس وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا، تو ایسے شخص کے لیے فدیہ کا حکم ہے، ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کی مقدار (پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت) ہے، بعد میں اگر صحت یاب ہوجائے تو جتنے روزے چھوڑے ہوں ان کی قضا لازم ہوگی، اور فدیہ کا ثواب الگ ملے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں  سائل کی والدہ  کے لیے اگر مذکورہ بیماریوں  کی وجہ روزہ رکھنا بہت مشکل ہے  یا بیماری بڑھ جانے یا کسی تکلیف میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہے تو ان کے لیے  روزہ  نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن جب تک صحت کی توقع ہو  فدیہ دینا کافی نہیں ہوگا، صحت کے بعد قضا لازم ہوگی ، یعنی اگر وہ لگاتار روزے نہیں رکھ سکتیں، وقفے وقفے سے رکھ سکتی ہیں تو وقفے سے روزے رکھیں، اور جو روزے چھوٹ جائیں ان کی قضا پورے سال میں متفرق طور پر کرتی رہیں،  اور اگر  روزہ رکھنے کی  بالکل طاقت  نہیں ہے، یعنی سردی کے ایام میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتیں، اور آئندہ تاحیات صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہوگا۔

المبسوط للسرخسی  میں ہے :

"وإذا خاف الرجل وهو صائم إن هو لم يفطر تزداد عينه وجعًا أو تزداد حماه شدةً فينبغي أن يفطر؛ لأن الله تعالى رخص للمريض في الفطر بقوله: {فمن كان منكم مريضًا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] وهذا مريض؛ لأن وجع العين نوع مرض والحمى كذلك، ثم إن الله تعالى بين المعنى فيه فقال:{يريد الله بكم اليسر ولايريد بكم العسر} [البقرة: 185] وفي إيجاب أداء الصوم مع هذا الخوف عسر، فينبغي له أن يأخذ باليسر فيه ويترخص بالفطر قال صلى الله عليه وسلم: «إن الله تعالى يحب أن تؤتى رخصه كما تؤتى عزائمه»".

(المبسوط للسرخسی : 6/137)

البحرالرائق میں ہے :

"والجوع والعطش وكبر السن، كذا في البدائع. (قوله: لمن خاف زيادة المرض الفطر)؛ لقوله تعالى: {فمن كان منكم مريضًا أو على سفر فعدة من أيام أخر} [البقرة: 184] فإنه أباح الفطر لكل مريض لكن القطع بأن شرعية الفطر فيه إنما هو لدفع الحرج وتحقق الحرج منوط بزيادة المرض أو إبطاء البرء أو إفساد عضو ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق وقيل عدالته شرط فلو برأ من المرض لكن الضعف باق وخاف أن يمرض سئل عنه القاضي الإمام فقال الخوف ليس بشيء كذا في فتح القدير وفي التبيين والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض ومراده بالخشية غلبة الظن كما أراد المصنف بالخوف إياها".

( البحرالرائق : فصل في عوارض الفطر في رمضان : 2/303)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144208201487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں