ایک شخص نےآج سے چھ سال پہلے زمین خریدی،اب تک زمین کی تقسیم نہیں ہوئی تھی توکچھ دن پہلے جب مشتری اوربائع زمین تقسیم کرنےلگے توشفیع بھی تقسیم کےوقت حاضرہوئے،اورشفعہ کادعوی کیا،موجودہ لوگوں نےشفیع کوالگ کرکےسمجھایاتوشفیع خاموش ہوگئے،اب تینوں (شفیع ،مشتری،اوربائع)نےزمین تقسیم کرکےحدودکومتعین کیا،اورزمین مشتری کےحوالےکی۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں شفیع کاحق شفعہ باطل ہوگیایانہیں؟
واضح رہے کہ زمین کےمالک کی طرف سے زمین فروخت کرنےکےبعدشفیع کےلئے شفعہ کاحق ثابت ہوتاہے،بیع کےعلم ہونےکےبعداگرشفیع نےفوراًشفعہ طلب نہیں کیابلکہ معلوم ہونےکےبعداس مجلس میں بالکل خاموش رہایاانکارکردیاتواس کاحق شفعہ باطل ہوجائےگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(أما طلب المواثبة) فهو أنه إذا علم الشفيع بالبيع ينبغي أن يطلب الشفعة على الفور ساعتئذ وإذا سكت ولم يطلب بطلت شفعته۔۔۔الخ."
(كتاب الشفعة، الباب الثالث في طلب الشفعة، ج:5، ص:172، ط:دارالفكر)
صورت مسئولہ میں اولاًجب چھ سال قبل اس مذکورہ زمین کی فروخت ہوئی اورشفیع نےاس وقت حق شفعہ کادعوی نہیں کیاتواب چھ سال بعداس کاشفعہ کادعوی کرناشرعاًدرست نہیں ،ثانیاًاب جب کہ بائع مشتری اورشفیع کےدرمیان تقسیم ہوچکی ہے،اورہرایک کی حدودمتعین ہوچکی ہیں تواس تقسیم سےبھی شفیع کاحق شفعہ ختم ہوچکاہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال:قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود، وصرفت الطرق، فلا شفعة."
ترجمہ:” حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا حق دیا تھا جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب حدود مقرر ہو گئیں اور راستے بدل دیئے گئے تو پھر حق شفعہ باقی نہیں رہتا“۔
(كتاب الشفعة، 1 - باب: الشفعة في ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود فلا شفعة.، ج:2، ص:787، ط:دار ابن كثير)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن