بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہرکی وفات کے بعد بیوی کا خوف اور وحشت کی بناء پراپنے میکے عدت گزارنا


سوال

 ایک عورت بی پی بلڈ پریشر کی مریضہ ہے، جس کے شوہر کی وفات ہوگئی ہے،وہ عدت گزارنے کے واسطے اپنے میکے آنا چاہتی ہے، کیوں کہ سسرال میں چھوٹے بچوں کے ساتھ اکیلی گھرمیں وحشت ہوتی ہے،اس کےبارےمیں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے طلاق یا شوہر کے انتقال کی صورت میں شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے، عام حالات میں دورانِ عدت وہاں سے کسی اور جگہ رہائش  منتقل کرنا جائز نہیں ہے،صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً مذکورہ خاتون کوسُسرال میں  عدت گزارنےمیں رات کےوقت وحشت  وتنہائی کاسامنا کرنا پڑتا ہو،اورعزت وآبرو یا جان ومال کی ہلاکت کا خوف ہو،اوربچےبہت چھوٹےہوں،توایسی صورت میں اولاً عورت کی وحشت اورڈروخوف کودورکرنےکےلیےعورت کے  محارم(والد،بھائی وغیرہ) میں سے کوئی اس کے ساتھ رہے،تاہم اگرایسی کوئی صورت  ممکن نہ ہوتوپھرعورت کے لیے اپنےمیکے میں عدت گزارنےکی گنجائش ہوگی،اوراگرمحض معمولی خوف ہوعزت وآبرو وغیرہ کاخطرہ نہ ہویابچےبھی بڑےاورسمجھددارہوں،تواپنےمیکےعدت گزارناجائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا.... (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة كما دل عليه ما بعده."

 (کتاب الطلاق، باب العدۃ، فصل فی الحداد، ج:3، ص:536، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة و لاتجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها و قد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، و إن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقًّا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدلّ ذلك على جواز الإنتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الإنتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة."

(كتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة، ج:3، ص:205، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں