میں نے ایک مکان 120 گز کے بقدر خریدا ہے،اور تمام رقم میں نے ہی ادا کی ہے،لیکن مکان میں نے بیوی کے نام کیا تھا، اورہبہ نہیں کیا تھا،میں نے ان کے سامنے بھی کہا تھا کہ یہ مکان میرا ہی ہے،صرف بیوی کے نام کرواتا ہوں،گفٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں کہا،صرف نام کروایا ہے،اب پو چھنا یہ ہے کہ مکان میرا ہے یا بیوی کا ہے؟
واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس چیز کو گفٹ یا ایسے الفاظ جو مالک بناکر دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، کہہ کر دیا جائے اور واہِب (ہبہ کرنے والا) اس موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل مالکانہ قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، اگر گفٹ کے الفاظ استعمال نہیں کیے، یا اس چیز کا مکمل مالکانہ قبضہ نہیں دیا تو صرف نام کردینے سے شرعاً گفٹ مکمل نہیں ہوتا، بلکہ وہ چیز گفٹ کرنے والے کی ملکیت میں برقرار ر ہتی ہے۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل نے مذکورہ مکان اپنے ذاتی پیسوں سے خرید کر محض بیوی کے نام کیا،اس کو مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا تھا،محض نام کر دینے سے بیوی اس کی مالک نہیں بنی ہے، تو یہ مکان بدستور شوہر (سائل )کی ملکیت ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض."
(کتاب الهبة، الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، 4/374،ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبةً."
(كتاب الهبة، ص:689، ج:5، ط:سعید)
فقظ واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن