بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعہ سے نکاح


سوال

ایک برادری ہے جو کہ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے غم خوشی میں بھی شریک ہوتے ہیں، نیز آپس میں سب کی رشتہ داریاں بھی ہیں، یعنی  ایک دوسرے کو رشتہ دے رکھے ہیں، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس برادری میں کچھ اہلِ سنت کے لوگ ہیں اور دیگر اہلِ تشیع کے ہیں،  لہذا اب آپ سے درج ذیل امور کا کا حل مطلوب ہے:

1۔  اہلِ تشیع کے لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر بعض صورتوں میں ہوسکتا ہے اور بعض میں نہیں تو ان صورتوں کی وضاحت فرما دیجیے!

2۔  اہلِ تشیع کی لڑکی سے سنی لڑکے کا نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟  نمبر 1 کی طرح اس کی بھی وجوہات مکمل فرما دیجیے!

3۔ برادری کے بہت سارے اہلِ سنت کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہلِ تشیع کی لڑکی کا اگر اہلِ سنت کے لڑکے سے عقد ہو جائے تو کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ اس طرح لڑکی بھی سنی ہو جائے گی، ان کی یہ بات صحیح ہے یا غلط؟  اگر صحیح ہے تو لڑکی کو عقد سے پہلےہی سنی کر دینا ضروری ہے یا اس کے اہلِ تشیع ہوتے ہوئے نکاح منعقد ہوجائے گا؟ مکمل وضاحت فرما دیجیے!

4۔ ایک شیعہ لڑکی سنی لڑکے سے کہتی ہے کہ نکاح کے بعد میں سنی ہو جاؤں  گی، اگر نکاح سے پہلے میں نے سنی ہونے کا اقرار کر لیا تو میرے والدین شادی سے انکار کر دیں گے، کیا اس طرح ہونے والا نکاح دینِ اسلام میں معتبر ہوگا؟  وضاحت فرمائیے یا پھر اس کا جو صحیح ہو وہ بیان فرمائی ہے ۔

نوٹ:  واضح رہے کہ جن اہلِ تشیع کا بیان ذکر ہوا ہے وہ اثنا عشری ہیں، جن میں تین باتیں پر زور طریقے سے پائی جاتی ہیں:

نمبر1۔  حضرت علی کو مشکل کشا مختارکل مانتے ہیں۔

نمبر 2۔  اپنے بارہ اماموں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا باقی تمام انبیاء سے افضل مانتے ہیں۔

نمبر  3۔ دو چار  صحابہ کے سوا باقی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم بشمول حضرت امیر معاویہ حضرت عائشہ و حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تبصرہ کرتے ہیں۔

تمام امور کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں مفصل ذکر فرمائیں!

جواب

1۔ 2۔ اگر کوئی شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہوگا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔

اور اگر کسی شیعہ لڑکے کے عقائد کفریہ نہ بھی ہوں، تو بھی کسی سنی صحیح العقیدہ دین دار گھرانے کی لڑکی کا نکاح اس سے نہیں کرانا چاہیے، کیوں کہ اس صورت میں اس کے عقائد کے فساد کا قوی اندیشہ ہے۔

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

الرَّافِضِيُّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ، فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ وَالْمُعْتَزِلِيُّ مُبْتَدِعٌ إلَّا إذَا قَالَ بِاسْتِحَالَةِ الرُّؤْيَةِ، فَحِينَئِذٍ هُوَ كَافِرٌ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.

وَلَوْ قَذَفَ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا - بِالزِّنَا كَفَرَ بِاَللَّهِ، وَلَوْ قَذَفَ سَائِرَ نِسْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  لَا يَكْفُرُ وَيَسْتَحِقُّ اللَّعْنَةَ، وَلَوْ قَالَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - لَمْ يَكُونُوا أَصْحَابًا لَا يَكْفُرُ وَيَسْتَحِقُّ اللَّعْنَةَ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْفِقْهِ.

مَنْ أَنْكَرَ إمَامَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، فَهُوَ كَافِرٌ، وَعَلَى قَوْلِ بَعْضِهِمْ هُوَ مُبْتَدِعٌ وَلَيْسَ بِكَافِرٍ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ كَافِرٌ، وَكَذَلِكَ مَنْ أَنْكَرَ خِلَافَةَ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي أَصَحِّ الْأَقْوَالِ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.

وَيَجِبُ إكْفَارُهُمْ بِإِكْفَارِ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطَلْحَةَ وَزُبَيْرٍ وَعَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ - وَيَجِبُ إكْفَارُ الزَّيْدِيَّةِ كُلِّهِمْ فِي قَوْلِهِمْ انْتِظَارَ نَبِيٍّ مِنْ الْعَجَمِ يَنْسَخُ دِينَ نَبِيِّنَا وَسَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ.

وَيَجِبُ إكْفَارُ الرَّوَافِضِ فِي قَوْلِهِمْ بِرَجْعَةِ الْأَمْوَاتِ إلَى الدُّنْيَا، وَبِتَنَاسُخِ الْأَرْوَاحِ وَبِانْتِقَالِ رُوحِ الْإِلَهِ إلَى الْأَئِمَّةِ وَبِقَوْلِهِمْ فِي خُرُوجِ إمَامٍ بَاطِنٍ وَبِتَعْطِيلِهِمْ الْأَمْرَ وَالنَّهْيَ إلَى أَنْ يَخْرُجَ الْإِمَامُ الْبَاطِنُ وَبِقَوْلِهِمْ إنَّ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - غَلِطَ فِي الْوَحْيِ إلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دُونَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وَهَؤُلَاءِ الْقَوْمُ خَارِجُونَ عَنْ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ وَأَحْكَامُهُمْ أَحْكَامُ الْمُرْتَدِّينَ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. ( كتاب السير، الباب التاسع في احكام المرتدين، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ ، ٢ / ٢٦٤، ط: دار الفكر)

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

شیعہ سے نکاح جائز ہے یا نہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟

سنی لڑکے کا شیعہ لڑکی سے نکاح اور اس نکاح میں شرکت کرنے کا حکم

3۔ شیعہ لڑکی اگر سوال میں مذکورہ تمام نظریات یا دیگر کفریہ عقائد کی حامل ہو تو سنی لڑکے کے ساتھ  اس کا نکاح شرعاً منعقد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقدِ نکاح سے قبل شیعہ عقائد سے سچے دل سے توبہ کرکے اس سے براءت کا اعلان کردے، اور براءت کرنے میں تقیہ نہ کرے، بصورتِ دیگر نکاح حرام ہوگا۔

4۔ مسئولہ صورت میں اس طرح نکاح منعقد نہ ہوگا، البتہ اگر وہ شیعہ عقائد سے تائب ہوجائے، چاہے اس کا اعلان نہ کرے، لڑکے اور اس کے گھر والوں کو علم ہو تو نکاح درست ہوجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں